Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

قرض اور جوا – پھر سہی – میری بات:روہیل اکبر

Posted on
شیئر کریں:

قرض اور جوا – پھر سہی – میری بات:روہیل اکبر

قرض اور جوا دونوں ایسی چیزیں ہیں جو انسان لالچ میں آکر استعمال کرتا ہے اور یہ دونوں لعنتیں بڑھتی بڑھتی اس حد تک چلی جاتی ہیں کہ انسان کے گھر کے برتن تک بک جاتے ہیں اس پر بعد میں لکھوں گا پہلے کچھ شتر بے مہار سوشل میڈیا کا ذکر کردو جو اس وقت بے لگام ہوچکا ہے کیونکہ ہمارا باقی کا میڈیا سرکارکا غلام بن چکا ہے اصل خبر ڈھونڈنے کے لیے لوگ سوشل میڈیا کی مدد لیتے ہیں جسکے ہمارے معاشرے پر بہت سے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ایسے ایسے فیک اکاؤنٹ کی مدد سے مختلف افراد کے خلاف مہم چالئی جارہی ہے جو جوھٹی ہونے کے باوجود سچی لگنا شروع ہوجاتی ہے حالیہ دنوں جسٹس بابر ستار کے خلاف مہم چلائی گئی جسکی وضاحت بڑی دیر بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کو ہی دینا پڑی حالانکہ یہ حکومتی اداروں کا کام ہے کہ وہ ہر ایسی مہم کا فوری منہ توڑ جواب دے لیکن بدقسمتی سے ہمارے تمام ادارے اپنے اصل کام سے ہٹ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہیں سوشل میڈیا کو دیکھنا اس پر پالیسی بنانا اور پھر اس پر عملدرآمد کروانا محکمہ تعلقات عامہ صوبائی سطح پر ڈی جی پی آر اور مرکزی سطح پر پی آئی ڈی کا کام ہے جنہوں نے اس حوالہ سے ابھی تک کوئی کام نہیں کیا حالانکہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا بھی ایک قانونی دائرے کے اندر رہتے ہوئے کام کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں لائیکس،سبسکرائبز اور مونوٹائز کے چکر میں ہم وہ کچھ بھی کر جاتے ہیں جو ہمارے اپنے،قوم کے اور ملک کے مفاد میں بھی نہیں ہوتا اور یہ سب کچھ اس وقت تک ہوتا رہے گا

 

جب تک ہم اس اتھرے گھوڑے کو لگام نہیں ڈال دیتے اس کے لیے ہمارے اداروں کو بھی سنجیدہ ہوکر اس پر کام کرنا پڑے گا رہی بات ڈی جی پی آر کی اس ادارے کی حیثیت آج صرف اشتہاری کمپنی کی بن کررہ گئی ہے حالانکہ اس ادارے کا کام عوام اور حکومت کے درمیان فاصلہ کم کرنا ہے لیکن اس ادارے کے افسران ماس کمیونیکیشن کی ڈگریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے جب اس ادارے میں آتے ہیں تووہ بھی کلرک بن جاتے ہیں کسی کی اپنی سوچ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی وژن لکیر کے فقیر بن کر خبر لگوانا اور دوسرے دن اخبارات میں اپنی بنی ہوئی خبر کوچھپی دیکھ کر خوش ہونا ہی انکا کام رہ جاتا ہے میں نے آج تک کسی پی آر او کو یہ کہتے نہیں سنا کہ آپ ہمارے منسٹر کا انٹریو کریں،انکے اچھے کاموں کی تشہیر کریں یا کبھی کسی پی آر او نے اپنے کسی وزیر کے حلقے کا صحافیوں کے وفد کو دورہ کروایا ہوا باقی سب باتوں کو تو چھوڑیں کسی پی آر او سے اسکے منسٹر کا نمبر مانگ لیں تو انہیں موت پڑ جاتی ہے کہ اچھے خاصے افسر ہونے کے باوجود ڈی جی پی آر میں بیٹھے ہوئے ڈائریکٹر تک کے لوگ کلرکوں سے بدتر ہیں جو صرف ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی سیاست کررہے ہیں ایک دور تھا کہ ڈی جی پی آر باقی سب محکموں سے تگڑا محکمہ ہوا کرتا تھا لیکن آج یہ محکمہ خود اپنی کارستانیوں کی وجہ سے ختم ہوتا جارہا ہے اگر اس محکمہ سے اشتہارات والا کام ختم کردیا جائے تو یہ محکمہ عملا ختم ہوجائیگا

 

انکے پاس صحافیوں کے لیے کوئی سہولت نہیں اور تو اور انکے پاس خود اپنے لیے بھی کچھ نہیں ہے وہ تو بھلا ہو ثمن رائے کا جس نے اس مرتے ہوئے محکمہ کو بچا لیا نئی بلڈنگ دی،نئی گاڑیا ں لیکر دیں،کمروں میں نئے اے سی لگوادیے اور صاف پانی کے درجنوں ڈسپنسر لگوا کر دیے اس محکمہ کے لوگوں کی مثال اس سے اچھی اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ یہ جس ٹہنی پر بیٹھے ہیں سب ملکر اسے ہی کاٹ رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب سب منہ کے بل دھڑام سے نیچے پڑے ہونگے اور انہیں اٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا اس محکمہ کے ٹیلی فون آپریٹر سے لیکر اوپر تک سبھی اپنے آپ کو نواب سراج الدولہ سمجھتے ہیں لیکن کام انکے دولے شاہ کے چوہوں سے بھی کم ہیں ڈی جی آپریٹر سے کوئی ٹیلی فون نمبر مانگ لیں تو فورا جواب ملتا ہے کہ نہیں ہے یہاں تک کہ انکے پاس سے انکے نئے ڈی جی پی آر کا نمبر بھی نہیں ملتاجبکہ سب سے اہم سیٹ ڈائریکٹر نیوز ہوتی ہے جہاں پورے محکمہ سے چن کر ایسے خشک ترین شخص کو لگایا گیا ہے جو اس محکمہ کو پولیس کا تفتیشی ونگ سمجھتا ہے موجودہ ڈی جی پی آر اگر اس ادارے میں کوئی مثبت تبدیلی لانے میں ناکام رہا تو میں سمجھونگا کہ وہ بھی اس ادارے کی بربادی میں اپنا حصہ ڈال کرایک دن رخصت ہوجائیں گے لیکن انہیں بھی یاد رکھا جائیگا

 

کیا ہی اچھا ہو کہ انہیں ثمن رائے کی طرح یاد کیا جائے رہی بات سوشل میڈیا کی تواس بارے میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ حکومت سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی پر کام کر رہی ہے انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے رویے پر مزید پالیسی گائیڈ لائنز متعارف کرائی جائیں گی ڈیجیٹل رائٹس اور قابل اعتراض مواد کے معاملے میں بھی بہتری آئے گی امید ہے وہ اس کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا کر د م لیں گے کیونکہ وہ ایک قابل اور محنتی انسان ہیں اس حوالہ سے اگر وہ پنجاب سے عثمان انور سمیت ان جیسے سوشل میڈیا کو سمجھنے والوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیں تو مزید بہتری کی گنجائش نکل سکتی ہے۔اب کچھ تذکرہ قرض اور جوئے کا جو ہمارے ہاں سب سے زیادہ ترقی پر ہے اور شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی جارہا ہے قرض اور جوا دونوں ایسی چیزیں ہیں جو انسان لالچ میں آکر استعمال کرتا ہے اور یہ دونوں لعنتیں بڑھتی بڑھتی اس حد تک چلی جاتی ہیں کہ انسان کے گھر کے برتن تک بک جاتے ہیں آج ہماری قوم ان دونوں چیزوں کے بھنور میں ایسی پھنسی ہے کہ واپسی کا راستہ نظر نہیں آرہا ایک طرف حکمران ہیں جو قرض کو ثواب سمجھ کر مانگتے ہیں اور پھر اسے بے دردری سے آڑا دیتے ہیں اور بھگتنا قوم کو پڑتا ہے تو دوسری طرف جواری لوگ ہیں جو قوم کولوٹ رہے ہیں

 

پاکستان میں جو ئے کے کون کون سے طریقے اور کیسے استعمال ہوتے ہیں اور انکے تدارک کے لیے ہماری ایجنسیوں کا کیا کردار ہے اس پر آج لکھوں گالیکن اس سے پہلے تشویشناک بات یہ ہے کہ حکمرانوں نے قرض کا جو طوق پوری قوم کے گلے میں ڈال رکھا ہے اس سے ہماری قومکا ہر فرد 2لاکھ 88ہزار کا مقروض کا مقروض ہوچکا ہے اس بات کا اعلان ماہر معیشت اور سابق وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کیا ہے اور انکا کہنا ہے کہ ہم نے بطور نیشن آمدن کم اور اخراجات زیادہ کر لیے ہیں پچھلے 12سالوں میں ماضی کی نسبت دوگنا قرضہ لیا ہے قرض سمیت دیگر ادائیگیاں ڈالرز میں کرنی ہوتی ہیں ہم ڈالرز چھاپ نہیں سکتے اس لیے ہمیں کمانے ہوتے ہیں جبکہ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے قرض لیا جاتا ہے اور یہ بات باعث شرمندگی ہے کہ دنیا آگے اور ہم پیچھے جا رہے ہیں جبکہ اسی حوالہ سے سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا بھی کہنا ہے کہ سیاسی معاملات حل کئے بغیر معاشی معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے، بجٹ خسارے کی تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتیں ذمہ دار ہیں گذشتہ17 سال سے قرضہ بڑھ رہا ہے اور ہم نے کیا کچھ بھی یہاں تک کہ پاکستان میں ایک ہزار بچوں میں سے 62 پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں ملک میں ہیپاٹائٹس 7 فیصد اور بنگلادیش میں زیرو فیصد ہے یہ تو تھی معاشی باتیں اب چند باتیں جواریوں کی جنہوں نے رہی سہی کسر پوری کررکھی ہے اور ان جواریوں نے جدید ایپ اور ویب سائٹس کے زریعے ملک بھر میں اپنا نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں پکڑنے والا کوئی نہیں کیونکہ ہماری ایجنسیوں کو سرکاکری کاموں سے فرصت ملے تو وہ اس طرف بھی توجہ دیں فلحال تو انکے پاس سیاسی ورکروں کی لسٹیں بنانے اور انہیں پکڑنے کا ٹاسک ہے رہی بات عام پاکستانیوں کی وہ پھر سہی۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
88102