غزہ اور مسلمان ۔تحریر : فدا محمد خان
امت مسلمہ کی نکبت و سیاہ بختی خلافت راشدہ کے خاتمہ کی صورت میں شروع ہوئی تھی۔ جب حکمرانوں کا انتخاب میرٹ کے بجائے نسب کی بنیاد پر کیا جانے لگا تو نتیجہ کے طور پر اجتماعی معاملات نااہلوں کے سپرد ہونا شروع ہوا۔ ابتداء میں کراہت سے قبول کیا جانے والا یہ عمل آگے چل کر مقدس اجتماعی اصول بن گیا۔ ابتدا چونکہ بڑے لوگوں کے ہاتھوں ہوئی تھی، اس لیے یہ نامحمود عمل عوام ہی کی نہیں خواص تک کی نظر میں بھی عین محمود قرار پایا جانے لگا بیٹا خواہ کتنا ہی نکما، لولا، لنگڑا، ڈنگر نما اور اجتماعیت کی مٹی پلید کرنے والا کیوں نہ ہو، باپ کی جگہ بیٹھنے کا حقدار وہی قرار پایا جانے لگا۔ خلافت راشدہ کے بعد کی تاریخ خاندانی بادشاہتوں کی بے غیرتی پر مبنی داستانوں سے پر ہے۔ عمر بن عبد العزیز واحد شخص ہیں جن پر ابن عم نے اعتماد کیا، مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ گزر جائے تو بادشاہت پھر عبد المالک کی اولاد کی طرف عود آئے۔
اس اللہ کے نیک بندے نے تجدید کا کام شروع کیا تو اہل خاندان نے ان کا کام ہی تمام کر دیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے نصیب میں جو بھی آیا شکم پرور اور شہوت کا ر بدمعاش ہی آیا اور بہت سارے ان میں بھائیوں تک کو قتل کرکے بادشاہ بن گئے۔ ظاہر ہے ایسے لوگوں کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔ اگر چہ کچھ ان میں نیک دل اور خوش خُلق بھی تھے مگر ان کی خوش خُلقی اور نیک فطرتی نظام حکومت میں اصلاح اور خلافت راشدہ کے نظام کی بحالی کے حوالے سے کچھ کام نہ آئی۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور ایک کے بعد ایک بد ترین نظام اور حکمران مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط ہوتا رہا۔ مسلمانوں کی ترقی کا سوچنا اور رفتار ِ زمانہ کے ساتھ چلنا تو دور کی بات، عیش و عشرت کے رسیا ان حکمرانوں سے اپنی دو اینٹ کی ریاستیں اور حکومتیں نہ سنبھالیں جاسکیں۔ہلاکو خان جس نے مسلم ریاستوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، کافر ہونے کے باوجود اس بات کا ادراک رکھتا تھا کہ مجھے بطور عذاب مسلط کیا گیا ہے۔جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب “تاریخ الخلفا”میں دمشق کے سلطان ناصر کو لکھا گیا ہلاکو خان کا خط نقل کیا ہے:”ملک ناصر! تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم خدا کے لشکر ہیں، وہ ہمارے ہی ذریعے گناہگاروں ، ظالموں اور متکبروں سے انتقام لیتا ہے، ہم جو کرتے ہیں وہ خدا ہی کے حکم سے کرتے ہیں۔۔۔ دنیا کے باقی ماندہ لوگو! تمھارے ساتھ بھی یہی کچھ ہونے والا ہے، یاد رکھو ہمارا لشکر رحم کھانے والا نہیں بلکہ برباد کر دینے والا ہے، ہمارا مقصود ملک گیری نہیں بلکہ انتقام ہےاور ہماری تلوار تم سب کی گردنوں پر اتر نے والی ہے۔۔۔۔”
دنیا بدل رہی تھی ،علم و آگاہی کے نئے دریچے وا ہو رہے تھے، ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرنے کا خیال لوگوں کے دل و دماغ میں انگڑائی لے رہا تھا، نئے حوادث جنم لے رہے تھے، مگر یہ تھے کہ ‘بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘ کہتے ہوئے خرمستیوں میں غلطاں رہتے تھے۔ کہتے ہیں جس وقت یورپ وغیرہ میں آکسفورڈ جیسے ادارے قائم ہو رہے تھے، ہمارے والے عاشق مزاج مسلمانوں کے اموال سے معشوقوں کی یاد میں “تاج محل” تعمیر کرنے میں مصروف تھے۔ افسوسناک بات یہ کہ جب بر صغیر میں مسلمانوں کا ہزار سالہ دور اقتدار انگریزوں کے ہاتھوں تلپٹ ہو رہا تھا، تو مسلمان اقلیت میں تھے۔ اس کے بعد یہاں کے مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا درد سر یہی “اقلیت” میں ہونا ثابت ہوا۔
تقسیم اکثریت کو مطلوب نہ تھی، اور اگر مسلمان اکثریت میں ہوتے تو انھیں بھی ہرگز مطلوب نہ ہوتی، یہی سے ہماری سیاہ بختی شروع ہوتی ہے۔ دشمن طاقتور تھا، تعدی اور تقدم کا خطرہ ہر آن لاحق رہنے لگا، تحفظ خطرے میں تھا، اس لیے ہم سپاہ کو بھگوان تصور کرنے لگ گئے، ساری محبتیں ان کے نام ہوگئیں انھیں جب قوم کی مجموعی چاہتوں کا اندازہ ہوا تو سوچا کہ کیوں نہ قوم کو اس کی چاہتوں کا حقیقی بدلہ دیا جائے، یوں انھیں دلوں کے ساتھ ساتھ جسموں کی حکمرانی کی بھی سوجھی۔ اب قوم کمبل چھوڑ نا چاہتی ہے مگر کمبل اسے نہیں چھوڑ رہی۔پاکستان سمیت جملہ اسلامی ممالک کے حکمران امت کے تصور کے عاری ہیں ۔ مسلمانوں کا مذہبی پناہ گاہ سعودی عرب اس دور میں بھی مطلق العنانی کی چکی میں پس رہا ہے، جمہور کی کوئی رائے نہ فیصلوں میں عوامی خواہشات کا پاس لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح سب کی الگ الگ دکانیں قائم ہیں، سب اپنی عیاشیوں کو دوام اور حکمرانی کو استحکام بخشنے کے لیے امریکا کے آگے سجدہ ریز ہیں، غزہ اور اہل غزہ کی اشک شوئی بھلا کون کرے اور کیسے کرے؟

