Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سینیٹ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2023 کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے تحریک پیش کی

Posted on
شیئر کریں:

سینیٹ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2023 کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے تحریک پیش کی

اسلام آباد(چترال ٹایمزرپورٹ)سینیٹ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2023 کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی۔بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے تحریک پیش کی کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2002 میں مزید ترمیم کرنے کا بل پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2023 فی الفور زیر غور لایا جائے۔ بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ صحافیوں کے ایک حلقے کے بل پر تحفظات تھے، باقی تنظیموں نے اس کی حمایت کی، صحافیوں کا ایک بڑا وفد جس میں مختلف تنظیموں کے عہدیدار شامل تھے، اس نے وزیراعظم سے ملاقات کی، اس موقع پر بعض وفاقی وزراء بھی موجود تھے، صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں نے وزیراعظم کو بتایا کہ یہ بل صحافتی برادری کے لئے ایک سنگ میل ثابت ہو گا، صحافیوں نے بل کی منظوری کے لئے پریس گیلری سے واک آؤٹ بھی کیا تھا اور وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے انہیں یقین دلایا تھا کہ اس بل کو منظور کرایا جائے گا کیونکہ اس سے تنخواہوں اور سیکورٹی کے معاملات جڑے ہوئے ہیں،وزیراعظم نے بھی ہدایت کی کہ یہ بل منظوری کے لئے ایوان میں پیش کیا جائے۔

 

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ اپریل 2022ء میں پیمرا آرڈیننس میں ترمیم کے عمل کا آغاز کیا گیا، اس میں بہت سی شقوں کی تبدیلی ضروری تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اے پی این ایس، سی پی این ای، پی ایف یو جے، پی بی اے، ایمنڈ سمیت تمام میڈیا نمائندوں کے ساتھ مل کر اس پراسیس کو شروع کیا، طویل مشاورت کے بعد مس انفارمیشن، ڈس انفارمیشن کو اس بل میں شامل کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پیمرا آرڈیننس 2002ء کے تحت چیئرمین پیمرا کسی بھی چینل کو بند کر سکتا ہے، معطل کر سکتا ہے، لائسنس منسوخ کر سکتا ہے، چلتے پروگرام کو بند کر سکتا ہے، چیئرمین پیمرا کے یکطرفہ اختیار کو اتھارٹی میں تقسیم کیا، کونسل آف اتھارٹی کو اختیار دیا، اس میں اپیل کا حق دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا ورکرز کے لئے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں تھا، نیوز پیپرز ملازمین کے لئے آئی ٹی این ای کا پلیٹ فارم دستیاب تھا، پی ایف یو جے، پی آر اے، آر آئی یو جے سمیت مختلف نمائندوں سے مل کر اس ترمیم کو شامل کیا گیا کہ کوئی ادارہ ملازمین کے واجبات ادا نہیں کرتا تو حکومت انہیں اشتہارات نہیں دے گی، اگر کوئی ادارہ کم از کم اجرت ادا نہیں کرے گا تو اسے بھی حکومتی بزنس جاری نہیں کیا جائے گا۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ آئی ٹی این ای نے 9 ماہ میں 14 کروڑ روپے ریکور کر کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کی، تین شقیں اس بل میں شامل کی گئیں، 12 ماہ اس پر مشاورت ہوئی، قومی اسمبلی میں 10 سے 12 دن تک یہ بل موجود رہا، وہاں اس پر بحث ہوئی، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے یہ بل منظور ہوا، اس کے بعد یہ بل سینیٹ اجلاس میں پیش کیا گیا، میری درخواست پر یہ بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیجا گیا تاکہ اس میں مزید رائے آ جائے، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں چیئرمین پیمرا کی سلیکشن کا اختیار پارلیمان کو دینے کی رائے دی گئی،

 

وزیراعظم نے اس ترمیم کی فوری منظوری دی۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں آگاہ کیا کہ دونوں شقیں قانون کا حصہ ہیں، مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تعریف کو 12 ممالک اور اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کی ڈیفی نیشن سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے تیار کی، پہلے کہا گیا کہ کسی کے اشارے پر یہ کالا قانون بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ کہا کہ ترامیم دیں لیکن اسے میری ذات کا مسئلہ بنایا گیا، میں نے ہمیشہ تنقید خندہ پیشانی سے برداشت کی ہے، سی پی این ای، ایمنڈ، پی ایف یو جے، پی بی اے کے لوگوں نے کمیٹی میں آ کر تصدیق کی کہ ہم نے اس بل کی تیاری میں مشاورت میں حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا نمائندوں نے کہا کہ بل حکومت نے پیش کیا ہے لیکن یہ میڈیا انڈسٹری کا بل ہے، میری قیادت نے اظہار رائے کی جنگ لڑی ہے، سابق دور میں چلتے پروگرام بند کر دیئے جاتے تھے، عرفان صدیقی کو ایک کالم لکھنے پر جیل بھیجا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان مراحل سے گذرے ہیں، میری قیادت پر الزام لگایا گیا کہ ہم کالا قانون لا رہے ہیں، ہم آزادی اظہار رائے کو ختم کر رہے ہیں، بل کو پڑھے بغیر متنازعہ بنایا گیا،پریس گیلری میں پی ایف یو جے، پی آر اے سمیت تمام ورکنگ جرنلسٹس موجود ہیں، یہ بل ایک پراسیس سے گذر کر آیا تھا، اس بل کے خلاف پروپیگنڈا کر کے ورکرز کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کی گئی، ورکنگ جرنلسٹس کی جانب سے یہ بل پیش کروں گی۔ انہوں نے کہا کہ جب پی ایم ڈی اے بن رہی تھی اس وقت بھاشن دینے والے کہاں تھے؟ ہم پی ایم ڈی اے کے کالے قانون کے خلاف دھرنے دے رہے تھے، اس وقت یہ کہاں تھے؟ بل کو پڑھے اور سمجھے بغیر متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

 

قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کی کنوینئر سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا کہ بل دوبارہ پیش کرنے سے پہلے متعلقہ فریقین سے مشاورت ضروری ہے۔ سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مشاورت ہونی چاہیے تاکہ کسی کو اس پر اعتراض نہ ہو۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ جس کیٹیگری میں پیمرا لائسنس جاری کرتا ہے، اسی میں نشریات کی اجازت ہونی چاہیے، یہ معاملہ قائمہ کمیٹی کو بھجوایا جائے، جلدی میں بل منظور نہ کیا جائے۔سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اس بات پر سب کو اتفاق ہے کہ صحافیوں اور میڈیا ورکروں کے واجبات اور تنخواہوں کی ادائیگی ایک ماہ میں ہونی چاہیے، ہمیں ان کے دکھ اور درد کا احساس ہیں، ہم میڈیا ورکرز کے ساتھ ہیں، نئی ترامیم نہ کافی ہیں، چیئرمین پیمرا کی تعیناتی پارلیمانی کمیٹی کرے اور وہ پارلیمان کو جوابدہ ہو۔ سینیٹر ہمایوں مہمند، سینیٹر مہر تاج روغانی نے بھی بل قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کا مطالبہ کیا۔ سینیٹر دنیش کمار، سینیٹر کامران مائیکل اور سینیٹر عرفان صدیقی نے بل کو فوری منظور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے بل کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پر چیئرمین سینیٹ سے رولنگ کا مطالبہ کیا۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تمام صحافتی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ بل منظور کیا جائے، اس لئے بل کی منظوری کا عمل شروع کیا جائے۔اس دوران اپوزیشن ارکان نے بل کی منظوری کا عمل شروع کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔ چیئرمین کی ہدایت پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے بل پیش کرنے کے لئے تحریک پیش کی جس کی منظوری کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2002 میں ترامیم پیش کیں جن کی ایوان نے منظوری دیدی اور بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔

 

سینیٹ میں پیمرا ترمیمی آرڈیننس 2023 منظور

اسلام آباد(سی ایم لنکس) سینیٹ نے پیمرا ترمیمی آرڈیننس 2023 منظور کرلیا۔چئیرمن سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوا۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ترمیمی آرڈننس 2023 پیش کیا۔عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم بل کی حمایت کرتے ہیں، اسے رد نہیں ہونا چاہیے۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کل صحافیوں کا 40 رکنی وفد وزیراعظم سے ملا، جس میں میڈیا مالکان بھی موجود تھے، وفد نے وزیراعظم کو کہا کہ یہ صحافیوں کی فلاح کا بل ہے، اسے منظور کیا جائے، بل کو ترامیم کے بعد واپس قومی اسمبلی جانا ہے لہذا اسے منظور کر لیا جائے۔رضا ربانی کا کہنا تھا کہ جتنی بھی صحافیوں کی تنظیمیں ہیں انکو اعتماد میں لینا چاہیے، اب ممبران بھی ایوان سے خفیہ چیزیں رکھ کر قراداد ایوان میں لارہے ہیں، آج بھی کاغذ کا پلندہ ہے اور نہیں معلوم کیا کہاں سے آرہا ہے۔طاہر بزنجو نے کہا کہ سیاست دانوں کی طرح صحافتی تنظیمیں میں آپس میں تقسیم ہیں۔بل کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نے واک آؤٹ کیا۔ رضا ربانی اور طاہر بزنجو بھی ایوان سے باہر چلے گئے۔ایوان بالا نے پیمرا ترمیمی بل 2023 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
77723