سرمایہ داری اور سامراجی جنگیں – نعمان جمالدینی
سرمایہ دارانہ نظام اپنی ماہیت میں منافع خوری کا نظام ہے۔ اس نظام میں ہر عظیم انسانی قدر کو نفع و نقصان کے ترازو میں رکھ کر تولا جاتا ہے اور منافع کے بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ یہاں ہر چیز ما سوائے طبقاتی شعور کے بورژوا منافع کے تابع ہو جاتی ہے رہائش، تعلیم، علاج، فن، ادب، اور یہاں تک کہ جنگیں بھی۔
جب سرمایہ دار ریاست اپنے اندرونی وسائل کو مکمل طور پر نچوڑ لیتی ہے اور داخلی منافع کے ذرائع کم پڑنے لگتے ہیں تو وہ بیرونی منڈیوں، وسائل، اور سستی محنت کی طرف رخ کرتی ہے۔ یہیں سے سرمایہ داری سامراج کی صورت اختیار کر لیتی ہے یعنی ایسا نظام جس میں سرمایہ دار ممالک کے حکمران دوسروں کی زمین، دولت اور محنت پر قبضہ کر کے اپنے منافعے میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سامراجی عزائم کو جب مذہب، قوم پرستی یا قومی سلامتی کے پردے میں لپیٹ دیا جاتا ہ تو یہ نہ صرف فریب دہ ہوتا ہے بلکہ انتہائی خطرناک بھی کیونکہ اس سے عوامی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے اور پرولتاریہ طبقے جو کسی بھی قوم کی اکثریت پر مشتمل ہوتا ہے، کو جنگ کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ جنگیں بظاہر قوموں یا مذاہب کے درمیان نظر آتی ہیں لیکن درحقیقت یہ سرمایہ دار طبقوں کی آپس کی لڑائیاں ہوتی ہیں۔ یہ لڑائیاں ظالم و مظلوم کے درمیان نہیں بلکہ ظالم و ظالم کے درمیان کی لڑائیاں ہوتی ہیں۔ ایک طرف کی بورژوازی نئی کالونیاں اور منافع کے ذرائع تلاش کر رہی ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف کی اشرافیہ اپنے موجودہ اقتدار اور مراعات کو بچانے کے لیے جنگ میں کودتی ہے۔ بعض اوقات یہ جنگیں براہِ راست معاشی مفادات کے لیے نہیں بلکہ بورژوا طبقے کے سیاسی مفادات کے لیے بھی چھیڑی جاتی ہیں۔ ایسی جنگوں کا مقصد عوام کی توجہ داخلی بحرانوں سے ہٹانا، عوامی تحریکوں کو کچلنا، ریاستی جبر کو جواز دینا، یا حکمران طبقے کے اقتدار کو مستحکم کرنا ہوتا ہے۔ چونک سرمایہ داری میں ریاست خود سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ ہوتی ہے اس لیے یہ سیاسی مقاصد بھی بالآخر بورژوازی کے معاشی مفادات ہی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
ان جنگوں کا میدان حکمران طبقوں (بورژوازی) کا میدان ہوتا ہے لیکن ان میدانوں کو دونوں اطراف کے محنت کش اور غریب عوام کے خون سے رنگ دیا جاتا ہے۔ پرولتاریہ جس کا نہ ان جنگوں میں کوئی فیصلہ ہوتا ہے نہ کوئی مفاد اسے میدانِ جنگ میں جھونک دیا جاتا ہےکبھی قومیت کے نام پر تو کبھی مذہبی اور تکبیری نعروں کے ذریعے۔ یہ محنت کش طبقہ نہ صرف ان جنگوں میں مرتا ہے بلک ان کے بعد پیدا ہونے والے قحط، مہنگائی، بربادی اور ریاستی جبر کا پہلا نشانہ بھی یہی بنتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جنگ سے پہلے بھی وہ بھوک، بے روزگاری اور استحصال کے چکی میں پِس رہا ہوتا ہے جنگ کے دوران اور اس کے بعد کی زندگی میں بھی۔
یہ سامراجی طاقتیں خود قبضہ گیر ہوتی ہیں دوسروں کی زمین، معیشت اور وسائل پر زبردستی قابض ہوتی ہیں مگر اپنے تسلط کو کبھی “قبضہ” تسلیم نہیں کرتیں جبکہ مخالف ریاست کے ہر اقدام کو فوراً جارحیت قرار دیتی ہیں۔ یہی منافقت سامراجی سیاست کا بنیادی ستون ہے۔
ایسے میں اگر ان ممالک میں کوئی تحریک حقیقی معنوں میں قومی آزادی یا عوامی خودمختاری کے لیے اٹھتی ہے تو سامراجی ریاستیں اپنے مخالف ریاست میں موجود عوامی تحریکوں کو بھی اپنے مفاد میں استعمال کرنے لگتی ہیں۔ نتیجتاً یہ ہوتا ہے کہ انقلابی اور عوامی جدوجہد کو کمزور کر کے اسے خود سامراجی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح اصل مزاحمت بھی ایک اور سامراجی کھیل میں بدل جاتی ہے بظاہر تو مزاحمت لیکن درحقیقت سرمایہ دارانہ دنیا کا ایک تماشا بن جاتی ہے۔
جب ایسے واقعات وقوع پذیر ہونے لگتے ہیں تو یہی مارکسزم کا طریقۂ فکر ہے جو ہمیں نہ صرف ان واقعات کی ماہیت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ اس دوران ہرولتاریہ کا موقف اور نجات کا راستہ بھی فراہم کرتا ہے۔
مارکسی نظریہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کسی بھی جنگ یا بین الاقوامی کشیدگی کا تجزیہ اس کے پیچھے کارفرما معاشی، سیاسی اور طبقاتی عوامل کی روشنی میں کیا جائے۔ جب ان عوامل کو بے نقاب کیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان سامراجی جنگوں کے اصل فائدہ اٹھانے والے دونوں طرف کے سرمایہ دار طبقے ہوتے ہیں۔
لہٰذا مارکسزم ایسے جنگی حالات میں واضح کرتا ہے کہ سامراجی جنگیں عوام کی جنگیں نہیں ہوتی بلکہ یہ بورژوازی کے باہمی تضادات اور مفادات کی جنگیں ہوتی ہیں جن کا بوجھ محنت کش اور مظلوم طبقہ اٹھاتا ہے۔
مارکسی درست مؤقف یہ ہے کہ محنت کش طبقے کو ان جنگوں میں کسی ایک ریاست یا بلاک کا ساتھ نہیں دینا چاہیے بلکہ اپنی لڑائی کو سرمایہ داری کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر جاری رکھنا چاہیے۔
مارکسی نظریہ سکھاتا ہے کہ تمام ممالک کے محنت کش، تمام سرحدوں، قومیتوں اور مذاہب سے بالاتر ہو کر عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف متحد ہوں۔ یہی حقیقی جنگ ہےجنگ سرمایہ داری، سامراج، استحصال اور جبر کے خلاف۔ اور محض یہی وہ جنگ ہے جس میں پرولتاریہ اور مظلوم قومیتوں کا مفاد پیوست ہے۔

