Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان -”قائد اعظم کے اصل جانشین“ ۔ محمد جاوید حیات-

شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان-”قائد اعظم کے اصل جانشین“ ۔ محمد جاوید حیات-

مصروف سڑک کنارے چھیتڑے نکلے گدی ڈال کر بیٹھا ہوا تھا پاکستان کا ایک معزز شہری تھا ۔۔لوگوں کے جوتوں کی مرمت کرتا اور پالیش کرتا تھا ۔۔۔چہرے سے بہت مطمٸن تھا ۔کسی کے بھی جوتے ٹھیک کرکے معاوضہ لینے کا سما آتا تو بسم اللہ کرکے معاوضہ داٸیں ہاتھ سے لیتا اور” شکریہ“ بولتا ۔۔عمر ستر سال کی لگ بھگ تھی ۔۔راہ چلتوں کے جوتوں کی طرف کوٸی توجہ نہیں دیتا جس طرح دوسرے پالیشی لوگ دیتے ہیں یا آواز لگاتے ہیں ۔۔۔پالش ۔۔۔جوتوں کوچمکاٶ۔۔۔شخصیت سنوارٶ ۔۔۔بابا کی آنکھوں میں چمک اور اطمنان تھا۔ ایک نیپکن گھٹنوں پہ ڈالا ہوا تھا کہ جوتے مرمت کرتے ہوۓ اس کے کپڑے خراب نہ ہوں ۔۔

میں گاٶں سے کچے راستوں پر چل چل کے آیا تھا ایک فنکشن پہ جانا تھا۔۔جوتے گردوں غبار سے اٹے ہوۓ تھے ۔سوچا کہ چمکا کے جاٶں ۔۔۔بابا کے پاس جا کے رکا۔ بابا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا تھا فلحال اس کے پاس کوٸی کام نہ تھا ۔۔میں نے سلام کیا ۔۔بابا یہ جوتے ذرا پالش کرو ۔۔اس نے پہلے پلاسٹک کے چپل آگے کیا درست کیا ۔۔میں نے جوتا اتار کر چپل پہنا ۔۔اس نے میرے جوتے اٹھاۓ جوتے اپنے گود پہ ہی جھاڑ دیا ۔میرے پاس فیس ماسک نہیں تھی میں نے جھٹ سے رومال جیب سے نکالا منہ پہ رکھا تاکہ ناک منہ کو گرد نہ لگ جاۓ ۔۔بابا کے ہونٹوں پہ تبسم پھیل گئی ۔۔بسم اللہ کر کے موٹے کپڑے کا ٹکڑا اٹھایا پھر جوتوں کو جھاڑا ۔۔۔برش اٹھایا ۔۔مجھ سے کہا۔۔ بیٹا ! تھوڑا سا وقت لگے گا یا تو کہیں سے ایک کب چاۓ پی کے آٶ۔۔۔میں نے کہا بابا ۔۔خیرکوٸی بات نہیں میں ساتھ والی گدی پہ بیٹھتا ہوں ۔۔میں بھی بیٹھ گیا ۔۔بابا نے کہا ۔۔بیٹا گاٶں سے آۓ ہو ۔۔میں نے کہا ہاں ۔۔بابا تم نے گردوں غبار سے اٹھے جوتے دیکھ کر اندازہ لگایا ۔۔۔

ہاں ۔۔بابا کا لہجہ بھلا کا شرین تھا ۔۔میں نے کہا بابا ۔۔۔تم نے یہ جوتے اپنی گودی میں جھاڑے ۔۔۔پھر کم از کم ایک منٹ کی خاموشی تھی ۔۔۔بابا کی پر اسرار خاموشی ۔۔۔تب اس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا ۔۔بیٹا ! میں اس مٹی کے ذرے ذرے کو اپنے بدن پہ، اپنی گودی میں چھپاتا ہوں ۔۔آپنی آنکھوں میں چھپاتا ہوں ۔۔۔سرما ہے بیٹا ۔۔۔میری آنکھوں کا سرما ۔۔کہا تم کہاں جا رہے ہو؟ ۔۔۔بابا فنکشن پہ جا رہا ہوں آج یوم پاکستان ہے ۔۔۔آج ۔۔۔۔اچھا بابا نے کہا ۔۔جشن ہوگا تقریب ہوگی ۔۔لوگ سج دھج کے آٸیں گے ۔ قومی ترانہ پیش ہوگا ۔۔اس دھرتی کی حفاظت کی قسمین کھاٸی جاٸینگی ۔۔تاریخ دھراٸی جاۓ گی ۔قربانیوں کا ذکر ہوگا ۔۔عزم، ارادے وعدے ۔۔عہد و پیمان ۔۔۔پھر تقریب ختم ہوگی ۔۔۔چمکتے جوتے والے آٸر کنڈشنڈ کاروں میں ان پختہ سڑکوں پہ فراٹے بھریں گے ۔۔۔تم تو کچے راستے سے آۓ ہو نا بابا۔۔۔اس نے مجھے مخاطب کیا ۔۔۔میں نے کہا ہاں ۔۔۔تمہیں تو اس سر زمین سے کوٸی شکوہ تو نہیں ۔۔۔بابا ۔۔۔میرا ناطقہ بند ہو گیا تھا ۔۔۔کچھ نہ کہہ سکا ۔۔اس نے کہا ۔۔۔تم لوگ اس تقریب سے فارغ ہوکر اس پاک سر زمین میں پھیل جاٶگے۔۔لیکن جج اسی طرح نا انصافی کرے گا ۔وکیل صداقت بھول جاۓ گا۔محافظ کی فکر منتشر رہے گی ۔ٹیچر اسی طرح کلاس روم بھول جاۓ گا ۔۔پولیس کا خلوص منہ چڑ کے نہیں بولے گا ۔دکاندار چیزیں مہینگی بھیجے گا ۔ڈرایور من مانی کرے گا ۔حکمراں رعایا کو بھول جاۓ گا ۔دھاٸیاں ہونگی ۔۔آنسو ہونگے ۔فریادیں ہونگی ۔۔پھر خاص دن آٸیں گے پھر تقریبیں سجیں گی ۔۔ہاں نا بیٹا ۔۔۔۔
بابا ۔۔۔میرا ناطقہ بند تھا ۔۔۔۔
بابا نے آہ بھر کر کہا ۔۔۔۔اس ملک نے سب کو سب کچھ دیا ہے۔۔۔کاش یہ ملک ایک زندہ قوم کے پاس ہوتا ۔۔بابا نے ایک جوتا چمکا کے میرے سامنے رکھا ۔۔۔دوسرا اٹھایا ۔۔بیٹا تم سرکاری ملازم ہو؟ ۔۔۔میں نے کہا ہاں ۔۔۔اس باربجٹ میں تمہاری تنخواہیں بڑھیں ؟۔۔ میں نے کہا ہاں ۔۔۔ قرض پہ بڑھیں؟ ۔۔اغیار سے قرض لے کے تمہاری تنخواہیں بڑھاٸی گٸیں ۔۔ مجھے یکدم جھٹکا سا لگا ۔۔غالب یادآیا ۔۔

قرض کی پیتے تھے مۓ اور سمجھتے تھے یہ کہ ہاں ۔۔
رنگ لاۓ گی ہماری فاقہ مستی ایک دن ۔۔۔۔

تم خوش ہوۓ۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔تم میں اتنی جرآت نہیں تھی کہ کہتے کہ معاشی بحران ہے ۔۔۔ہماری تنخواہیں مت بڑھاٶ ۔۔نہیں ۔۔۔اس لۓ کہ ہماری تنخواہیں نہ بڑھانے سے بھی ۔۔۔۔ہاں یہ قرض کی رقم عیاشیوں میں ڈوب جاتی ۔۔ہاں بیٹا ایسا ہوتا آیا ہے ۔۔بیٹا !۔۔جس قوم میں غیرت ایمانداری اور قربانی کا جذبہ ختم ہو جاۓ اس کی یوں حالت ہوتی ہے ۔اس کے بڑے قربانی سے ماورأ اور چھوٹے قربانی کا بکرا بن جاتے ہیں۔مایوسی پھیل جاتی ہے نا امیدی کی فضاہوتی ہے ۔۔قاید اعظم نے جس قوم کے لۓ قربانی دی تھی ۔۔وہ یہ قوم نہیں تھی ۔وہ ایسی قوم تھی جس کو اس ملک کے ذرے ذرے سے عقیدت تھی ۔وہ قوم خلوص کا پیکر تھی وہ قوم جذبہ خدمت سے پر تھی ۔۔اس قوم نے اس ملک کے لۓ اپنا سب کچھ تج دیا تھا ۔وہ قوم محنت اور صداقت پہ یقین رکھتی تھی ۔وہ بدعنوانی سے پاک تھی ۔یہ ملک اس کی منزل تھا ۔اس ملک کی مضبوطی اور ترقی اس قوم کا خواب تھا ۔۔یہ دیکھو بیٹا تمہارا دوسرا جوتا بھی چمکایا گیا تم تقریب میں جاٶ ۔تقریر سنو ! چاۓ پیو نکل جاٶ ۔اس سر زمین میں چل پڑو۔۔اس کی گرد اورمٹی کی دھول تمہارے جوتوں کو گرد آلودہ کرے گی پھر کسی پالیشی کے پاس جانا ۔۔۔جوتوں کو چمکانا ۔۔۔لیکن بیٹا اس آزاد فضا میں ایک لمبی سانس لینا ۔۔بے عرض سانس۔۔۔۔ تمہیں آزادی کی خالص خوشبوآۓ گی ۔۔۔بیٹا اس سمے ”قاٸد اعظم “ سے پیار کرنا ۔۔میں اس سرزمین کی دھول کے ذرے ذرے کو اپنے بدن میں سمیٹ لیتا ہوں نیچے گرنے نہیں دیتا ۔۔۔۔میری آنکھوں کا سرما ۔۔۔میں نے چیخ کر کہا ۔۔۔بابا تم اس فنکشن میں نہیں آٶ گے ۔۔۔

نہیں بیٹا ۔۔۔۔ہاں ایک شرط پہ آٶں گا ۔۔۔کہ تم مجھ جیسے موچیوں ، راج مزدوروں، چھاپڑی فروشوں ، چپڑاسیوں ، مستریوں، کمہاروں ، نانبایوں اوران جیسوں کو ایک میدان میں جمع کرو ۔۔۔مجھے لے جاٶ اس میں کوٸی بڑا نہ آۓ ۔۔۔میں ان سے پوچھوں گا کہ آزادی کیا چیز ہے؟ قاٸد اعظم کون تھے ؟ زندگی کس بلا کا نام ہے ؟ غربت کسے کہتے ہیں بھوک پیاس کیا ہوتی ہے ؟ وہ جواب دیں گے ۔۔۔مجبور کبھی جھوٹ نہیں بولتا آپ بھی سنیں گے ۔۔۔لیکن بیٹا !اس فنکشن میں کوٸ ”بڑا“ نہ آۓ ۔قاٸد اعظم کے اصل جانشین آجاٸیں۔۔۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
62223