داد بیداد ۔ پا کستانی نوٹ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
نوٹ کا انگریزی لفظ بر صغیر میں روپیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے بنگا ل سے بلو چستان تک عام لو گ، ان پڑھ، نیم خواندہ اورخواندہ سب روپیہ کو نوٹ (Note) ہی کہتے ہیں افراط زر کی وجہ سے پا کستانی نوٹ جب ہلکا ہوتا ہے تو عام آدمی متا ثر ہو کر نوٹ کو درخت کے گر تے ہوئے پتوں سے تشبیہہ دیتا ہے امیر کے ہاتھ میں نوٹ آجا ئے تو بٹوے میں تہہ کر کے رکھتا ہے غریب کے ہاتھ میں نوٹ آجا ئے تو بٹوہ نہیں ہوتا وہ اس کو مروڑ کر نیفے میں رکھ دیتا ہے غریب عورتیں نوٹ کو دوپٹے کے پلو میں گانٹھ لگا کر رکھتی ہیں سجا د یلدرم نے ایک نوٹ کی سر گزشت کے عنوان سے انشائیہ لکھا تو عوام کی نفسیات کے ایسے دلچسپ پہلو وں کو نوٹ کی زبا نی بیان کیا
آج ایک اخبار کا انگریزی تراشہ نظر سے گذرا تو نوٹ کی سر گذشت یا د آگئی یہ اپنے وقت کا مشہور اخبار ہے، تراشے کے ایک کونے پر تاریخ کٹی ہوئی ہے سال 1955لکھا ہے، اُس سال کے کرنسی ریٹ دئیے ہوئے ہیں، تراشے میں صاف نظر آتا ہے کہ اس سال ایک ڈالر 4پا کستانی روپوں میں آتا تھا، گویا ہمارے چار نوٹوں کے بدلے میں ان کا ایک نوٹ تھا میں نے گوگل استاد سے پو چھا تو معلوم ہوا کہ 1972تک پا کستانی نوٹ کا یہی وزن تھا روپے کی یہی قیمت تھی، پھر میں نے تاریخ کے صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ دو بڑ ی جنگوں کے با وجود پا کستان نے اس دور میں شاندار ترقی کی تھی پا کستان کی ائیر لائن دنیا کی بہترین ائیر لائن ہوا کر تی تھی پا کستان کا نہری نظام دنیا کا مثا لی نظام سمجھا جا تا تھا، قالین، ٹیکسٹا ئل، چاول، آلا ت جر احی، کھیلوں کے سامان اور پنتا لیس دیگر مصنو عات یا پیدا وار کی بر آمد ات کا پوری دنیا میں چر چا تھا پا ک افغان سر حد پر سمگلنگ کا نا م کسی نے نہیں سنا تھا
افغا نستان آنا جا نا اس قدر مشکل تھا جس قدر آج کل امریکہ آنا جا نا مشکل ہے، 1972ء میں پہلی بار سٹیٹ بینک نے عالمی اداروں سے قرض لینے کے لئے پا کستانی نوٹ کی قیمت میں کمی کرنے کا حکم جا ری کیا اس کے بعد نوٹ کی قیمت گر تی رہی یہاں تک کہ ایک ڈالر 280روپے کا ہو گیا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا پھر 1979کا سال آیا حکومت پا کستان نے افغا نستان کے ساتھ ملنے والی سر حدوں کو ہر قسم کی ٹریفک کے لئے کھول دیا تجر بہ کا میاب ہوا تو ایران کی سر حدوں کو بھی کھول دیا گیا، گویا بین لا قوامی تجا رت پر سے پا بندیاں اٹھا ئی گئیں تب تک پا کستان کی صنعتی اور زر عی ترقی کا سفر ختم ہو چکا تھا، ڈیڑھ ہزار بڑے کا ر خا نے بند ہو چکے تھے بر آمد ات کا سلسلہ رک گیا تھا
چنا نچہ قانونی تجا رت بند ہوا غیر قانونی تجا رت میں ا فغا نستان سے اسلحہ اور منشیات کی در آمدات کھل گئیں، ایران سے تیل آنے لگا، ملکی محا صل کے دروازے بند ہوئے، قانون کے کا نوں میں پنگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا گیا اور قانون کی آنکھ بھی پھوڑ دی گئی، پا کستان کا نوٹ روز بروز کمزور ہوتا گیا 1990کی دہائی میں پا کستان کے اندر چار حکومتیں تبدیل ہوئیں ہر تبدیلی اپنے ساتھ عذاب لے کر آئی اور ہر آنے والا عذاب جا نے والے عذاب سے دس گنا زیا دہ کر بنا ک ثا بت ہوا مورخ لکھتا ہے کہ یہ دہا ئی پا کستانی تاریخ کی بدترین دہائی تھی اکیسویں صدی اس کر بنا ک حا لت میں آگئی تو امید کی ایک کر ن نظر آئی ڈالر کے مقا بلے میں پا کستانی نوٹ مسلسل گر تے گر تے 60روپے تک پہنچ چکاتھا اگلے 8سال ہمارے نوٹ کی قیمت بر قرار رہی قوم نے سکھ کا سانس لیا کہ نوٹ کی قیمت مزید گراوٹ کے کرب سے دوچار نہیں ہوئی، مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منا تی
2008میں ہمارا نوٹ 60روپے سے 89روپے پر آگیا، گویا جو ڈالر 6مہینہ پہلے 60روپے کا تھا چھ مہینہ بعد وہ 89روپے کا ہو گیا، ڈالر کی اڑان جو اُس وقت شروع ہوئی اب تک جا ری ہے نوٹ کی اس اندو ہنا ک سر کذشت میں کئی دوستوں کے چہرے بے نقاب ہوئے ہیں اور کئی پر دہ نشینوں کے نا م آتے ہیں مگر رہنے دیجئے، آج ان لو گوں کی سر گذشت بھی بے معنی ہے جنہوں نے 1972اور 2024کے درمیاں بیتے ہوئے 52سالوں میں اپنی تجا رت، اپنی صنعت و حر فت، اپنی پیداوار، اپنی صلا حیت، اپنی قابلیت اور اپنی استعداد پا کستان سے با ہر منتقل کی
آج وہ لو گ امریکہ، کینڈا، آسٹریلیا، متحدہ عرب اما رات، سر ی لنکا، بنگلہ دیش، ملا ئشیاء اور دیگر مما لک میں کا میا بی کے ساتھ کا روبار کر رہے ہیں ان سے کوئی بھتہ نہیں ما نگتا ان کو وہاں کی پو لیس آئے رو ز تنگ نہیں کر تی صدر ٹرمپ نے امریکہ کے لئے جو نئے امیگریشن قوانین تجویز کی ہے ان میں بھی 1990سے جا ری سر ما یہ امیگریشن کو تحفظ دیا گیا ہے جو اپنا سرمایہ لیکر کا روبار کے لئے امریکہ جا ئے گا اس کو امریکی شہریت ملے گی، نوٹ کی سر گذشت میں یہ بھی شامل ہے کہ پا کستانی نوٹ کی طرح پا کستانی تا جر کی اپنے ملک میں کوئی قدر نہیں با ہر کے ملکوں میں پا کستانی تا جر کو سر پر بٹھا یا جا تا ہے پا کستان کا نوٹ کیسے گراوٹ کا شکار ہوا؟ اس پر بار بار غور کیجئے

