Chitral Times

Jun 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ۔ سیا حت اور سڑ کیں ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

داد بیداد ۔ سیا حت اور سڑ کیں ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

گرمیوں کا مو سم آتے ہی سیا حوں کا رخ پہا ڑی علا قوں کی طرف ہو تا ہے حکومت بھی سیا حت کو فروغ دینے کے اعلا نات کر تی ہے خیبر پختونخوا کے سیا حتی مقا مات میں نا ران کا غان اور سوات کو 1960کی دہا ئی میں ترقی ملی اور سڑکیں بن گئیں، چترال بھی کا لا ش ثقا فت اور 25ہزار فٹ سے زیا دہ بلند پہاڑی چو ٹیوں کی وجہ سے سیا حوں کے لئے پر کشش علا قہ ہے مگر اس کو سڑ کوں سے اب تک محروم رکھا گیا ہے نہ کا لا ش وادیوں کے لئے پختہ سڑک بنی ہے نہ شندور کے پُر فضا مقام کے لئے پختہ سڑک بنی ہے نہ تریچ میر کے بیس کیمپ کے لئے پختہ سڑک بنی ہے، یہ بات اخبار بین حلقوں کے لئے حیرت اور تعجب کا باعث ہو گی کہ چترال کے دو اضلاع اپر اور لوئیر چترال کا مجموعی رقبہ 15ہزار مر بع کلو میٹر ہے وادی کی لمبائی اراندو سے بروغیل تک 485کلو میٹر ہے پختہ سڑک کی کل لمبائی 140کلو میٹر ہے، یعنی 200کلو میٹر سڑک بھی دستیاب نہیں اگر ایک سڑک کی بات کی جا ئے تو چترال شندور روڈ پر1989سے اب تک 35سالوں میں 13بار کام شروع ہو ا جبکہ 12دفعہ کام بند ہوا بو نی بو زوند روڈ افغانستان کی سر حد کو جا نے والا اہم راستہ ہے اس پر 2008میں کام شروع ہوا تھا 6بار کام بند ہوا چنا نچہ سڑک اب تک نا مکمل ہے،

 

چترال گرم چشمہ روڈ بھی افغان سر حد کو جا تا ہے اس پر 1985میں کا م شروع ہوا 39سالوں کے دوران 10بار کام بند ہوا سڑک ادھوری رہ گئی اور ادھوری ہے، کا لا ش آبا دی کی تین وادیوں کو جا نے والی سڑک اول روز سے لا وارث چلی آرہی ہے کسی بھی دور میں اس سڑک کو تعمیر کرنے کی سکیم نہیں آئی خدا خدا کر کے 2021ء میں کا لا ش ویلی روڈ کی سکیم آئی تھی 2022ء میں اس پر کام روک دیا گیا دو سال بعد ایک بار پھر کا لا ش ویلی روڈ پر کام شروع کرنے کا اعلا ن ہوا ہے، مگر کسی کو یقین نہیں آرہا کہ کا لا ش ویلی روڈ بنے گی کیونکہ لو گوں نے کا م شروع ہونے کے بعد باربار کام بند ہو تے دیکھا اس لئے ہوگا، ہو گی اور اس طرح کے مستقبل کی بات کرنے والے الفاظ کو اب لو گ سنجیدہ نہیں لیتے، چنا نچہ چترال کے دو اضلا ع میں ہر سال نئے سیا ح آتے ہیں، جو ایک بار آیا وہ کچی سڑ کوں پر دوبارہ سفر کرنے سے توبہ کرتا ہے اور اپنی اولا د کو نصیحت کر تا ہے کہ اس طرف کا رخ نہ کرو، گاڑی کا بھی اور تمہارا اپنا بھی کچومر نکل جا ئیگا،

 

24سال پہلے سیا حوں کے لئے پر کشش پہا ڑی علا قوں میں پاکستان ٹورزم ڈیو لپمنٹ کار پو ریشن (PTDC) کے پُر آسائش ہو ٹل ہوا کر تے تھے، اٹھارویں ترمیم کے بعد ان کو بند کیا گیا اٹھارویں تر میم لا نے والوں کا خیال یہ تھا کہ کنکرنٹ لسٹ ختم ہونے سے وفاق پر کام کا بوجھ کم ہو گا صوبے با اختیار ہونگے لیکن مر کز کے پا س سارے سفید ہا تھی اب بھی مو جو د ہیں صو بوں کو ”خپلہ خاورہ“ میں کوئی اختیار نہیں ملا نظر آنے والا کام یہ ہے کہ پی ٹی ڈی سی ہو ٹل بند ہو گئے اس سال اپریل کے مہینے میں چترال کے کاغلشت فیسٹیول کی ما رکیٹنگ ہوئی مئی کے مہینے میں کا لا ش فیسٹیول چلم جو ش کی ما رکیٹنگ کی گئی، دونوں جگہوں پر جا نے کے لئے منا سب سڑکیں نہیں تھیں گاڑیاں بمشکل 12کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی تھیں اب جون کے لئے شندور پو لو فیسٹیول کی مارکیٹنگ کی جا رہی ہے اپر دیر اور لواری ٹنل سے شندور جا نے والی سڑک کی لمبائی 240کلو میٹر ہے اور اس راستے کی حا لت ایسی ہے کہ 6گھنٹے کا سفر 15گھنٹوں میں طے ہو تا ہے گردو غبار، مٹی اور دھول اس پر مستزاد ہے

 

اگر حکومت پہاڑی علا قوں کے صحت افزا مقامات میں سیا حت کو ترقی دینے میں سنجیدہ ہے توچترال کی سڑکوں کے منصو بوں کو مکمل کرنا لا زمی ہو گا یہ ایسی سڑ کیں ہیں جن کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چار چیف جسٹس صاحبان نے گدھا گاڑی والی پگڈنڈیوں کا نا م دیا ہے، تین کور کمانڈر وں اور دوچیف آف آرمی سٹاف نے گاڑیوں کے لئے نا موزوں قرار دیا ہے پھر بھی انہی کھنڈرات پر گاڑیاں دوڑائی جا تی ہیں مشکل یہ ہے کہ متبادل راستہ کوئی نہیں سیا حت اور سڑکیں لا زم و ملزوم ہیں جہا ں پکی سڑکیں نہ ہوں وہاں کے لئے سیا حت کی ما رکیٹنگ بہت مشکل ہو گی اس لئے جو ہوا سو ہوا، آنے والے دو چار سالوں میں چترال کی سڑ کوں پر کام بند نہیں ہونا چا ہئیے اور گذشتہ تین دہا ئیوں میں بار بار کا م بند ہونے سے تعمیر شدہ کام پر جو فنڈ ضا ئع ہوا یا افراط زر کی وجہ سے سکیم کی لا گت میں جو اضا فہ ہوا ان تما م نقصانات کا حساب کتاب ہونا چاہئیے،ترقی یا فتہ اقوام کا یہ نعرہ ہوتا ہے پہلے سڑکیں پھر سیا حت۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
88942