داد بیداد ۔ دانتے گیلی لیو اور میکیاولی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
علا مہ اقبال نے غزل کو اپنے جذبات کے اظہار کے لئے نا کا فی قرار دیتے ہوئے کہا تھا ”بقدر شوق نہیں ظرف تنگنا نے غزل، وسعت کچھ اور چاہئیے میرے بیان کے لئے“ فلو رینس آنے سے پہلے میر ے ذہن میں چند نا موں کی ایک لڑی تھی جن میں گیلی لیو (Galileo) کا نا م سر فہر ست تھا پرو فیسر البرتو کا کو پارڈو(Porf Alberto Cacopardo) سے اس کا ذکر کیا تو مجھے دریاکے پار گیلی لیو کے گھر کی دہلیز پر لے گئے یہ وہ جگہ ہے جہاں اپنے وقت کے مشہور سائنسدان اور ما ہر فلکیات کو 1633ء میں اس کے گھر کے اندر قید کیا گیا انگلینڈ سے جون ملٹن (John Milton) نے 1638ء میں یہاں آکر دوران حراست گیلی لیو سے ملا قات کی .
پیرا ڈائزلاسٹ میں ایک مصر عہ ہے کہ فرشتے نے جنت کو جس طرح دیکھا تھا اس طرح گیلی لیو نے افلا ک پر سورج، چاند اور سیا روں کو دیکھا، یہ ملٹن کی طرف سے اس عظیم سائنسدان کو خرا ج عقیدت پیش کرنے کی مثال ہے گیلی لیو نے سائنسی تجر بات سے جب ثا بت کیا کہ زمین سورج کے گرد چکر لگا تی ہے تو ان کو جلا وطن کیا گیا اُس نے وینس کے قریب پاودا (Pavda)میں چندسال گذارے چرچ کے پا دریوں نے اس پر زور دیا کہ اس بات سے تو بہ کرے مگر اس نے انکار کیا تو اس کو قید کیا گیا ملٹن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب پیرا ڈائز لاسٹ کا پلاٹ بھی فلو رنس کے فلسفی دانشور تیر ھویں صدی کے دانتے Dante(1205-1321) سے لیا تھا ان کی کتاب ڈیوائن کا میڈی میں افلا ک کی سیر اور تخلیق کائنات کے رازوں کا ذکر ہے،
علا مہ اقبال نے فلورنس کے فلسفی دانتے کے جواب میں جا وید نا مہ نظم لکھی جس میں شاعر مولانا رومی کی رہنما ئی میں افلا ک کی خیالی سیر کر تا ہے اور زند گی کے رازوں سے اسلا می تعلیمات کے مطا بق پردہ اٹھا تا ہے وہاں سے ہم فلو رنس کے قدیمی پل پونٹے ویکیو (Ponte Vecchio) پر آگئے دریا پار سے فلو رنس کا نظا رہ کر کے ڈوما آف کیتھیڈرل، سیناگاک، بل ٹاور،سینٹاکروز اور گیلریا اکیڈ یمیہ کی تاریخی عما رتوں کو ایک ہی فریم میں دیکھا یہاں پر ایک یاد گار تعمیر کر کے اس پر میکل انجیلو کا شہکار آرٹ، ڈیو ڈ نصب کیا گیا ہے
اس کے چاروں پہلووں پر فلو رینس کا قدیمی نشان کنول بنا یا گیا ہے، فلورینس کا ایک حوالہ میکیا و لی (Machiavelli 1469-1527) بھی ہے وہ سفارت کار، شاعر، دانشور، فلسفی اور ادیب تھا اس کی کتاب دی پرنس ان کے مرنے کے بعد شائع ہوئی اس کو آمریت اور فسطا ئیت کا بائبل کہا جا تا ہے اُس نے لکھا ہے کہ حکمران کو چاہئیے کہ مخا لفین کے خلا ف ہر قسم کا حر بہ استعمال کرے مخا لفین کا قتل بھی حکمران کے لئے جا ئز ہے، ہم نے دریا کے پار مشہور بینکر اور طاقتورشخصیت کو سیمو ڈی میڈیسی (Casimo de Medice 1389-1464) کا ایک محل دیکھا وہ فلو رینس کا باشندہ اور امیر شخص تھا حکومتیں اس کے خز انے سے قرض لیتی تھیں اور اس کو ڈیفیکٹو حکمران کہا جا تا تھا کئی شہروں میں اس کے بڑے بڑے قلعے ہیں فلورنس کے محل سے متصل بہت بڑا باغ ہے،
دنیا کا پہلا سکہ فلورین (Florin) بھی میڈیسی نے جا ری کیا تھا دنیا کا پہلا بینک بھی میڈیسی نے قائم کیا تھا، نشاۃ ثا نیہ کے دور میں میڈیسی نے میکل انجیلو اور دیگر آرٹسٹوں کی سر پر ستی کی یہاں محل کے قریب قدیمی چر چ ہے جس کا نا م سان منیا ٹو ہے ہم نے چر چ کا دورہ کیا،فلورینس کی وجہ شہرت لیو نارڈو بھی ہے، میکل انجیلو بھی ہے دونوں اپنے وقت کے نا مور آرٹسٹ تھے عجا ئب گھروں میں ان کے فن پاروں کی بڑی بڑی گیلر یاں ہیں، میکل انجیلو کا کمال یہ ہے کہ وہ سنگ مر مر کے مجسمے کے اوپر انسان کی رگوں اور شریانوں کو بھی دکھا تا ہے
فلورینس رومی سلطنت کے زوال کے بعد وجود میں آنے والی چھوٹی ریا ستوں میں سب سے طاقتور ریا ست تھی کئی سال اس کو اٹلی کے دارلخلا فہ کی حیثیت بھی حا صل رہی جب ایما نو بل دوم نے 1861میں اٹلی کو متحد کیا تو دار الخلا فہ فلورینس سے روم منتقل ہوا آج یو نیور سٹی آف وینس کے پرو فیسر سٹیفا نو پیلو (Prof Stefano Pello) بھی ہمارے ساتھ تھے فلورینس اور وینس کی یونیور سٹیاں ہندوکش کے قدیم قبائل، ہندو کش کے قدیم مذاہب اور قدیم طرز معا شرت پر بشریا تی علوم کے حوالوں سے تحقیق کر رہے ہیں تحقیق کے نتائج پہلے اطالوی زبان میں شائع ہوتے ہیں پھر انگریزی میں ان کے تراجم شائع کئے جا تے ہیں پرو فیسر سٹیفا نو پیلو کا کمال یہ ہے کہ ان کو فارسی ادب پر بھی عبور حا صل ہے اردو بھی آتی ہے یار صحبت باقی

