Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خزانہ خالی کیسے ہے؟ – پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

صبح آنکھ کھلتے ہی جب گھڑی یا موبائل پر وقت دیکھنے کے لیے نظر ڈالیں تو یاد کرنا ہم نے یہ ٹیکس ادا کر کے خریدے ہیں پھر خزانہ خالی کیسے ہے؟صبح صبح ایسے باغیانہ خیالات حکومت کو پسند نہیں اور سوئی ہوئی قوم کو تو بلکل بھی گوارہ نہیں۔ ساری قوم سو رہی ہے کیونکہ یہ قوم مہنگائی سے مر جائے گی مگر گھبرائے گی نہیں۔ بستر سے نیچے چپل پہننے کے لیے پاوں رکھا تو یا دآیا یہ ٹیکس ادا کر کے خریدی ہے۔برش کرنے کے لیے برش اورٹوتھ پیسٹ اٹھایا تو یا د آیا یہ بھی ٹیکس دے کر خریدے ہیں تو خزانہ خالی کیسے ہے؟ منہ دھونے کیلے صابن تولیہ پکڑا تو یاد آیا ارے! یہ بھی تو ہم نے ٹیکس ادا کر کے ہی خریدے ہیں، بالٹی اور مگ کی طرف بڑھا تو ٹیکس یاد آیا، باتھ روم کی ٹیب کھولی تو ٹیکس یاد آیا،گیزر کا بٹن آن کیا تو ٹیکس یاد آیا ہر چیز ٹیکس دے کر خریدتے ہیں تو خزانہ خالی کیسے ہے؟واپس کمرے میں پلٹ کر کپڑے پہننے لگا تو یاد آیا یہ بھی ٹیکس دیکر خریدے ہیں، جوتے، پالش، برش، ٹشو، آئل، کنگی، پرفیوم وغیرہ جوکہ عام استعمال کی اشیاء ہیں ہم سب ٹیکس ادا کر کے ہی خریدتے ہیں،

خزانہ تو خالی ہے تو یہ ٹیکس جاتے کہاں ہیں؟ آپ سائیکل پر جائیں، موٹر سائیکل پر، کار پر یا لوکل گاڑی میں سفر کریں آپ روزانہ ٹیکس ادا کر کے سفر کر تے ہیں۔ہوٹل سے ناشتہ کریں یا گھر پر ہر چیز ٹیکس ادا کر کے استعما ل کر تے ہیں تو خزانہ خالی کیسے ہے؟بچوں کو ٹیکس دے کر پڑھاتے، ٹیکس دے کر سکول، کالج یا یونیورسٹی جاتے،ہوٹل سے کھانا کھائیں تو پیسے ہوٹل والا کماتا، کاروبار وہ چمکاتا اور ٹیکس ہم ادا کر تے ہیں۔ ہسپتال جائیں تو ٹیکس ادا کر کے علاج کرواتے، دوائی خریدیں تو ٹیکس ادا کر کے خریدتے حتی کے ماچس کی تیلی بھی استعمال کرتے ہیں تو پہلے ٹیکس ادا کر تے ہیں تو خزانہ خالی کیسے ہے؟بازار سے کچھ بھی خریدیں تو ٹیکس دے کر گھر لاتے، سیر تفریح پر جائیں تو ٹیکس دیتے،پارک میں جائیں تو ٹیکس دیتے، گاڑی کھڑی کریں تو ٹیکس دیتے، سڑک پر سفر کریں ٹول ٹیکس دیتے مگر یہ بات سمجھ نہیں آتی یہ ٹیکس کا پیسہ جاتا کدھر ہے؟

ایک بال پن لیں، کاغذ لیں یا ربڑ، ہر چیز ہم ٹیکس ادا کر کے خریدتے ہیں۔ بجلی کا بلب جلاتے تو ٹیکس دے کر، استری کرتے تو ٹیکس دے کر،فون کرتے تو ٹیکس دیتے، میسج کرتے تو ٹیکس دے کر، چولہا جلائیں تو ٹیکس دیکر مگر ہمارے ٹیکسوں کے یہ پیسے کہاں جاتے ہیں؟ پھر بھی خزانہ خالی ہے!!ہم گاڑی ٹھیک کرواتے تو ٹیکس دیتے، بال بنواتے تو ٹیکس دیتے، پیدا ہوتے تو ٹیکس دیتے،جیتے تو ٹیکس دیتے، مرتے تو ٹیکس دیتے۔ زندگی کا کوئی ایک بھی کام یا شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں ہم ٹیکس نہیں دیتے مگر پھر بھی خزانہ خالی ہے۔ ہم ٹیکس دے دے کر ہلکان ہو گئے اور حکومت کہتی ہم ٹیکس نہیں دیتے۔ معاملہ اتنا پیچیدہ نہیں ہے جتنا عوام کو بتایا جاتا ہے۔ دراصل عوام ٹیکس تو ہر لمحہ ہر گھڑی ہو روز ادا کرتی ہے مگر ٹیکس کے پیسے عوامی فلاح و بہبود کے بجائے بیوروکریسی، ملازمین اور سیاستدانوں کی مراعات اورعیاشیوں پر خرچ کردیے جاتے ہیں۔

ہمارے ٹیکسوں پر پلنے والے ملازمین ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں، ہمارے ووٹوں اور ٹیکسوں پراسمبلیوں میں پہنچنے والے سیاستدان عوامی خدمت کے بجائے عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں،عوامی نمائندوں کے لیے عوامی ٹیکسوں سے مہنگی گاڑیاں اور عوام کے لیے کھٹارہ لوکل بسیں، ہمارے ٹیکسوں سے ان کے بل، تعلیم، صحت، سیروتفریح، قیام و طعام، رہائش، آسائش اور فرمائش وغیرہ سب پوری کی جاتی۔ ہمارے ٹیکسوں سے ان کے بنگلے بنتے، ہمارے ٹیکسوں سے ان کے خاندان بیرون ملک کی سیریں کرتے، ہمارے ٹیکسوں سے یہ اپنی الیکشن مہم چلاتے، ہمارے ٹیکسوں سے اپنے بینر ز بنواتے، ہمارے ٹیکسوں سے اپنے سٹیکرز بنواتے، ہمارے ٹیکسوں سے اپنی اشتہار بازی کرتے، ہمارے ٹیکسوں سے خود نیسلے کا پانی پیتے اور ہمیں گٹر ملاپانی پلاتے، ہمارے ٹیکسوں سے یہ اپنے کتوں کو گوشت کھلاتے اور غریب آدمی کو روکھی روٹی سے بھی محروم کر رکھتے۔ ٹیکس دیتے دیتے غریب کے تن سے کپڑا اتر گیا، آنکھوں میں ہلکے پڑھ گئے، کمر جھک گی، گھٹنے جواب دے گئے، ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا، گردے بیچ دیے، بچے پھینک دیے، گھر بیچ دیے، جسم بیچ دیا، خون بیچ دیا غریب لٹ گیا مٹ گیا مگر ان کی حوس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ہمارے ٹیکسوں سے یہ تمام مراعات لیتے، ہمارے ٹیکسوں سے یہ اپنی تنخواہوں میں من مانا اضافہ کرتے۔

غیر ہنر مند کی تنخواہ چند ہزار مقرر کرنے والے سیاستدان عوام کو یہ بتانا پسند کریں گے ان کے پاس کونسا ہنر ہے اور یہ اتنی بھاری تنخواہیں او ر مراعات کس ہنر کی لیتے ہیں؟اعلی فوجی و سول افسران آدھی زندگی عوامی ٹیکسوں سے تنخواہیں اور ریٹائر منٹ کے بعدبھاری پنشن لیتے مگر عوام کی خدمت کے بجائے بعد از ریٹائرمنٹ سول عہدوں پر قابض ہو کر سولین کی حق تلفی کرتے۔ سرکاری ملازم جو عوام کے ٹیکسوں سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتے،عوام کی خدمت کے بجائے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑتے، بزرگوں کو فائلوں میں دفن کر دیتے، نوجوانوں کو دفتروں کے چکر لگوا لگوا کر بورڑھا کر دیتے، خواتین کو گھنٹوں انتظار کرواتے۔ ہر حکومت مہنگائی کی وجہ دوسری حکومت کو قرار دیتے ہوئے عوام پر ایک جانب مہنگائی کے پہاڑ گراتی ہے جبکہ دوسری جانب ٹیکس پر ٹیکس لگاتی ہے مگر عوام کے لیے کوئی سہولت فراہم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

مانا مہنگائی بہت ہے تو وزیروں پر ٹیکس بڑھا دیں، مشیروں پر ٹیکس بڑھا دیں، بیوروکریسی کی مراعات ختم کردیں، افسران کے ٹی اے ڈی اے ختم کردیں، ان کے الاونسسسز بند کر دیں یا کارکردگی کے ساتھ مشروط کر دیں،عوامی ٹیکسوں پر ضیافتیں ختم کر دیں، عوامی ٹیکسوں سے خریدی گئی سرکاری گاڑیوں کا ذاتی استعمال بند کر دیں، عوامی محافظوں کو اپنے باڈی گارڈ لگانا بند کر دیں،بجلی کے مفت یونٹ ختم کر دیں، مفت علاج، سفر، مواصلات نقل و حمل بند کر دیں، اعلی افسران کی تنخواہیں کم کر دیں، ایم این ایز اور ایم پی ایز جو عوامی نمائندگی کا راگ الاپتے نہیں تھکتے وہ تنخواہ لینا بند کر دیں وہ کون سے غرباء و مساکین میں سے ہیں۔ عوامی ٹیکسوں سے سرکاری اشتہار بازی بند کر دیں تو مہنگائی خود بخود کم ہو جائے گی۔یہ وزراء، مشیران اور افسران غریب عوام کے خون پہ پلنے والے پسوں ہیں ادھر سے چھلانگ لگائی تو ادھر سے پی لیا ادھر سے چھلانگ لگائی تو ادھر سے پی لیا۔

ان کے لیے نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ضابطہ، نہ اصول، نہ شرم و حیا، نہ خوف خدا ہے اور نہ ہی ضمیر کی جنبش۔ یہ انسانی جسم میں پتھر دل اور انسانی کھوپڑی میں حوس اور لالچ لیے پھرتے ہیں۔ ہم ہر چیز خریدنے سے پہلے اس لیے ٹیکس دیتے ہیں کہ ہمارے خون پسینے کی کمائی پہ امیر، وزیر مشیر، جاگیرداری، وڈیرے، بیوروکریٹ، افسر شاہی اور سیاستدانوں کی آل اولاد عیاشیاں کریں؟خزانہ خالی کی منطق دینے والے سیاستدان اگر ملک کے خیر خواہ ہیں تو اپنا پیسہ بیرون ملک سے لاکر پاکستان کے خزانے میں جمع کیوں نہیں کرواتے؟ ہم تو ہر دم، ہر پل، ہر گھڑی،ہر روز، ہر دن، ہر ہفتے، ہر مہینے اور ہر سال ٹیکس دیتے ہیں اور یہ نسل در نسل ہمارے ٹیکسوں پر پلتے ہیں اور عوام کو الو بناتے ہیں۔

اگر پھر بھی خزانہ خالی ہے تو ہمیں بتایا جائے ہمارے ٹیکسوں کا پیسہ جاتا کہاں ہے؟حکومت عوامی ٹیکسوں سے تمام محکمہ جات اور سیاستدانوں کو تو باقاعدہ سے نوازتی ہے مگر جو عوام ہر چیز ٹیکس دے کر استعمال کر تی ہے اس کی فکر ہی نہیں ہے۔عوام رو رہی ہے، حکومت سو رہی ہے۔یہ بات ذہن نشین کر لیں امیر ہو یا غریب، وزیر ہو یا مشیر، صغیر ہو یا کبیر، فقیر ہو یا بادشاہ سب کی قبر دوگز کی ہو گی، سب کا کفن سفید ہو گا، سب کے اوپر منوں مٹی ڈالی جائے گی، سب خالی ہاتھ جائیں گے۔ اپنی قبر میں مرنے سے پہلے آگ نہ جلائیں، بچھو نہ پالیں، سانپوں کے بل نہ بنائیں، بلکہ اس عوام پرترس کھائیں تاکہ سکون سے آخری سانسیں لینی نصیب ہوں۔ جو خلق خدا سے بھلا نہیں کر تااس کے ساتھ ’تھا‘ لگ جاتا ہے اور نشان عبرت بن جاتا ہے۔  


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56007