Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تارکین وطن کاپریشان کن مسئلہ – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

تارکین وطن کاپریشان کن مسئلہ – محمد شریف شکیب

حالیہ اخباری رپورٹ کیمطابق پاکستان سے گذشتہ ایک سال کے دوران بارہ لاکھ شہری مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی عدم تحفظ کی وجہ سے ملک چھوڑ گئے۔روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے والیپاکستانیوں کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 28لاکھ، 56ہزار519ہوگئی جو مجموعی آبادی کا 5اعشاریہ 14فیصد ہے۔ یہ اعدادوشمار سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت نے جاری کئے ہیں بغیر قانونی دستاویزات ایجنٹوں کی وساطت سے جانیں ہتھیلی پررکھ کر ملک سے فرار ہونے والوں کی تعداد اس کیعلاوہ ہے۔ حال ہی میں یونان کی سمندری حدود میں غیرقانونی تارکین وطن کاجہاز ڈوبنے سے ایک سو سے زیادہ پاکستانیوں سمیت سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اچھی مستقبل کی تلاش میں ملک سیباہر جانا کوئی جرم نہیں۔

 

ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے بھی تین کروڑ بیس لاکھ شہری مختلف ملکوں میں محنت مزدوری کر رہے ہیں۔لیکن ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی کے ملک سے بیرون ملک روزگار کی تلاش میں جانے والوں کی شرح 7اعشاریہ 8 فیصد ہے۔ سب سے زیادہ شرح افغانستان سے ملک چھوڑنے والوں کی ہے جو مجموعی آبادی کا ساڑھے بارہ فیصد ہے ان میں وہ افغان مہاجر بھی شامل ہیں جو 1979میں افغانستان پر سوویت یونین کی فوجی یلغار کے وقت پناہ کی تلاش میں پاکستان اور دیگر ملکوں کی طرف گئے تھے۔ان پناہ گزینوں کی تین پشتیں اب تک پاکستان میں رہ رہی ہیں۔پاکستان کے حکومتی حلقوں نے اپنے شہریوں کے بیرون ملک جانے کو ملکی معیشت کے لئے سود مند قرار دیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ لوگ بیرون ملک محنت مزدوری کرکے قیمتی زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جس سے ہماری معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنے ملک کی معیشت کو سنبھالا دے رکھا ہے۔

 

ان میں دوبئی، سعودی عرب، شارجہ، لندن، ہالینڈ،امریکہ، فرانس، جرمنی،سوئزر لینڈ، اٹلی، ملائشیا، سنگاپور ہانگ کانگ اور چین میں کاروبار کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوسکتی ہے۔بعض لوگ وہاں ملازمت کرکے پرکشش تنخواہین لے رہے ہیں لیکن اکثریت ان لوگوں کی ہے جو جزوی وقتی کام کرتے ہیں اور روزانہ دو تین جگہ کام کرکے خود کسمپرسی کی زندگی گذار رہیہیں اور نوے فیصد کمائی اپنے ملک بھیج رہے ہیں تاکہ ان کے بال بچوں کی دال روٹی چل سکے۔اگر اپنے ملک میں بہتر مواقع ہوں روزگار کا تحفظ ملے، مہنگائی قابل برداشت ہو۔تو کوئی شخص اپنے ماں باپ اور بال بچوں کو چھوڑ کر در بدر کی ٹھوکریں نہیں کھا سکتا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بیرون ملک خاص طور پرمشرق وسطی کے ممالک میں پاکستانیوں کو روزگار دلانے کے معاہدے ہوئے تھے۔

 

اورسیز پاکستانیوں کے مفادات کے تحفظ کے لئیالگ وزارت بھی قائم کی گئی تھی۔ اس حکومتی معاہدے کے تحت لاکھوں پاکستانیوں کو سعودی عرب، کویت، عراق، شارجہ، ابوظہبی، دوبئی اور دیگر ریاستوں میں روزگار ملا تھا۔ ملک کے اندر نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھانے کیلئے ادارے قائم کئے گئے تھے جن سے تربیت حاصل کرکے نوجوان بیرون ملک باعزت روزگار حاصل کرسکتے تھے۔پاکستان میں کالجوں،یونیورسٹیوں اور دینی مدارس سے سالانہ لاکھوں نوجوان فارع ہوکر عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں۔مگر ہنر نہ ہونے کی وجہ سے وہ ڈگریاں گلے میں لٹکائے سبزی، فروٹ اور پکوڑوں کی ریڑھیاں لگانے پر مجبور ہوتے ہین اگر حکومت ہنر سکھانے کے اداروں کے قیام پر توجہ دے اور نوجوانوں کو مفت ڈپلومہ اور ڈگری کورسز کروائے تو وہ نہ صرف بیرون ملک باعزت روزگار حاصل کرسکتے ہیں بلکہ ملک کے اندر رہ کر بھی اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے کے قابل ہوسکتیہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
77218