Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

برائے فروخت – میری بات:روہیل اکبر

Posted on
شیئر کریں:

برائے فروخت – میری بات:روہیل اکبر

ہم نے پاکستان کو مقروض ملک بنانے کے ساتھ برائے فروخت بھی بنا دیا ہے تمام سرکاری ادارے خسارے میں ہیں جنہیں بیچ کر ہم ان سے جان چھڑوا رہے ہیں جبکہ اسکے مقابلے میں پرائیویٹ ادارے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں ہم دنیا کا شاندار ہوٹل روزویلٹ اس لیے بیچ رہے ہیں کہ وہ خسارے میں ہے اور دوسرے طرف گھر سے بے گھر ہوکر ٹرک ہوٹلوں میں برتن صاف کرنے والا صدر الدین ہاشوانی پرل کانٹیننٹل،میریٹ اور ہوٹل ون سمیت نہ جانے کتنے ہی کاروبار کا مالک بن بیٹھا اور ہم دنیا کی مہنگی ترین جگہ پر اپنا ہوٹل نہیں چلا چکے ہماری اسٹیل مل سب سے بڑی مل ہونے کے باوجود نہ چل سکی کیونکہ اسکی سرپرستی سرکار کے پاس تھی اور اسکے مقابلہ میں ہاتھ سے اوزار بنانے والوں نے سب سے بڑی فاؤنڈری بنا لی دنیا کو ہوا بازی کا درس دینے والی پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن (پی آئی اے)سرکار کی سرپرستی میں رہتے ہوئے برائے فروخت ہوگئی اور ہمارے نظام حکومت کے سیاسی اور غیر سیاسی ٹھیکیداروں نے قرض کھا کھا کر پاکستان کو ڈیفالٹ کے قریب پہنچا دیا ابھی تو قرض ملنے پر ڈھول بجانے والے رخصت ہونے کے قریب ہیں

 

جب اس قرض کی واپسی ہوگی تب کیا حشر ہوگا آئی ایم ایف کے کہنے پر غریب عوام کا خون نچوڑنے والوں نے سوائے نفرت اور پکڑ دکڑ کی سیاست کے کچھ نہیں کیا ایک طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے والی پارٹیاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہی آج بھی اقتدار میں ہے اور انہی کے وفاقی وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق فرما رہے ہیں کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں پاکستان کے فیصلہ ساز پاکستان کے پالیسی میکر زاور حکمران طبقات قوم کو انصاف نہیں دے سکے ہم اپنے سے سو گنا چھوٹے ممالک کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں جب پیسے مانگنے کے لئے دوسرے ملکوں کے پاس جاتے ہیں تو دل کرتا ہے زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں چلے جائیں بھیک مانگیں گے تو کیا گرین پاسپورٹ کی عزت ہو گی یہ ہمارا قومی تضاد ہے جسے دور کرنا ہے اس کو دور کرنا پہلے سیاستدانوں کا کام ہے پھر ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے پاکستان آج نہایت مشکل اور ہم بہت بڑے بحرانی دور سے گز ررہے ہیں یہ میک اینڈ بریک کا دور ہے خدا نہ کرے ہم دوبارہ ٹوٹ جائیں ہمیں دوبارہ ٹوٹنا نہیں ہے ہم 24کروڑ ہو گئے ہیں چھ سال میں 4کروڑ بڑھ گئے ہیں ہمارے بے پناہ مسائل ہیں ہم تمام تر کوشش کے باوجود لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکے ہماری بستیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں طالبان کل آئے ہیں ان کے طرز حکمرانی سے سو اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن انہوں نے بھی ترقی کرنا شروع کر دی ہے

 

ایتھوپیا ایک مثال ہے اس کا ریفرنس غربت بھوک اور قحط تھا لیکن انہوں نے 25سالوں میں اپنے ملک کو ٹرن اراؤنڈ کر دیا بھارت کو تو چھوڑ ہی دیں وہ تو بہت آگے نکل گیا ہے بنگلہ دیش کہتے ہوتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے 71میں ہم الگ ہوئے لیکن وہ آج کہاں سے کہاں سے جا پہنچے ہیں اور ہم کہاں ہیں ہماری آپس کی لڑائی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا انتقال اقتدار کی لڑائی مارشل لاء جو بار بار کبھی اعلانیہ اور کبھی نقاب پوش آتے رہے انہوں نے ملک کانقصان کیا مارشل لاؤں کے نتیجے میں آنے والی سیاسی قیادت جسے سمجھتے ہوئے دس پندرہ سال لگ جاتے ہیں اس میں وقت کا بہت ضیاع ہوتا ہے سچ یہی ہے خواجہ صاحب کی یہ باتیں ایک تلخ حقیقت ہیں لیکن وہ بھی باتوں کے شعبدہ باز ہیں کیونکہ روز ویلیٹ ہوٹل اور پی آئی اے کی نیلامی کا سہرا انہی کے سر ہے خواجہ صاحب کے بارے میں انکے ساتھی بہت بہتر جانتے ہیں جو ایم ایس ایف کے دور میں بھی انکے ساتھ تھے سید فقیر حسین بخاری اورچوہدری اعجاز زندہ مثالیں ہیں جو انکے ایک ایک کام سے واقف ہیں آج ہر سیاسی لیڈ پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے اور جس نے یہ تحفہ دیا انکا حشر پوری کوم نے دیکھ لیا ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور ایٹم بم کے خالق محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مرتے دم تک گھر میں نظر بند رکھا وہ اپنی مرضی سے کہیں آ جا نہیں سکتے تھے

 

مجھے تو بہت زیادہ انکا قرب حاصل رہا انکی پارٹی تحریک تحفظ پاکستان کا سیکریٹری اطلاعات اور پھر جب انہوں نے پارٹی ختم کی تو اسکے بعد انکا ترجمان رہا شام ڈھلے جب انکے گھر کے برآمدے میں بیٹھ کر ڈھیروں باتیں ہوتی تو وہ اپنے ساتھ حکومتی رویے سے بہت پریشان ہوتے تھے آج ہم انہی کے بنائے ہوئے ایٹم بم پرفخر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیائے اسلام کا پہلا ایٹمی ملک بھی سمجھتے ہیں مجھے یاد ہے کہ پاکپتن کے کسی رہائشی نے خود سے جہاز بنا کر آڑا دیا اور پھر پولیس نے اسے پکڑ کر حوالات میں بند کردیا بجائے اسکے کہ اسے حکومتی سرپرستی میں لیکر اسکی حوصلہ افزائی کی جاتی الٹا اسے تشدد کا نشانہ بنا کر عبرت کا نشان بنا ڈالا کہ کسی اور کو اس طرح کی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو شائد اسی لیے تو ہماری یونیورسٹیوں کے پروفیسر کسی بھی ایسی ایجادات سے دور رہتے ہیں تاکہ وہ بھی کسی مشکل میں نہ پڑ جائیں ہماری سیاست پر بھی غنڈوں کا راج ہے جو کل کے غنڈے،بدمعاش اور رسہ گیر ہوتے تھے وہی آج ہماری سیاست پر قابض ہیں

 

اسلحہ کے زور پر امتھانات دینے والوں کی قابلیت کا اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ انکے دور میں ہی ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوتا ہے انہی کے دور میں ائر پورٹ آوٹ سورس ہوتے ہیں انہی کے دور میں روز ویلیٹ ہوٹل اور پی آئی اے پر برائے فروخت کا بورڈ لگتا ہے حالانکہ پاکستان دنیا کا خوبصورت ترین ملک ہے جہاں ہمارے پاس چار موسم ہیں سربلخ پہاڑ ہیں دنیا کی پانچ بلند ترین چوٹیاں ہیں محنت کش لوگ ہیں،لہلاتے کھیت ہیں،ریگستان،معدنیات سے مالا مال پہاڑ ہیں، دریا ہیں،آبشاریں ہیں اور سمندر ہے لیکن اسکے باجود ہم فقیر ہیں ہر وقت کشکول ہاتھ میں پکڑے للچائی ہوئی نظروں سے دوسروں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ کہیں سے خیرات مل جائے آخر میں نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی سے گذارش ہے کہ جس طرح آپ نے پنجاب کے ہسپتالوں کا بگڑا ہوا نظام درست کیا ہے اسی طرح واسا کو بھی نکیل ڈالیں جن کی لاپرواہیوں سے آئے روز گلیاں اور سڑکیں سیوریج کے پانی سے تباہ ہورہی ہیں اور ان پھر ان گٹروں کو کھولنے والے محنت کش جب بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے مین ہول میں اترتے ہیں تو وہ سیدھے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں گذشتہ روز بھی دو افراد جیسے ہی گٹر کے مینہول میں اترے تو پھر وہ زندہ واپس نہیں آئے یہ لوگ ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں جن کی وجہ سے ہمارے شہر خوبصورت ہیں انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سپیشل الاؤنس بھی دیا جائے اللہ تعالی پاکستان پر اپنا رحم فرمائے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
77658