’’اُڑتا پاکستان، گھبرایا بھارت!‘‘ ۔ تحریر: نجیم شاہ
لندن کی صبح وہی پرانی، وہی باسی سی تھی۔ فضا میں دھند ایسے پھیلی ہوئی تھی جیسے چائے والے نے دودھ زیادہ ڈال دیا ہو۔ ہر طرف سے چائے کی بھاپ اُٹھ رہی تھی، اور بسکٹوں کی خوشبو کے ساتھ وہی پرانی انگریزی بیزاری بھی مہک رہی تھی۔ گورے لوگ موسم کو برا بھلا کہنے میں مصروف تھے، گویا بادل اُن کے ذاتی ملازم ہوں جنہوں نے وقت پر حاضری نہ لگائی ہو۔ اِتنے میں اچانک ایک زوردار گرج سنائی دی۔ کچھ نے سمجھا شاید بادلوں نے استعفیٰ دے کر نئے آنے والے بادلوں کے اعزاز میں توپ چلا دی ہے۔ کسی نے شک کیا کہ لندن برج نے چھینک ماری ہے، لیکن جلد ہی حقیقت سامنے آ گئی — دراصل پاکستان ایئر فورس کے جے ایف-17 تھنڈر بلاک تھری نے آسمان پر انٹری مار دی تھی۔
یہ ایسی انٹری تھی کہ بادل راستہ چھوڑ گئے، پرندے خوف سے پر سمیٹ کر انسٹاگرام آف لائن کر گئے، اور بھارتی اینکرز کو اچانک نزلہ، زکام، اور حب الوطنی کی شدید قسم لاحق ہو گئی۔ یہ سب کچھ ہو رہا تھا رائل انٹرنیشنل ایئر ٹیٹو 2025 ء میں، جہاں پاکستانی طیارے صرف حصہ نہیں لے رہے تھے، بلکہ مکمل شو لوٹنے آئے تھے۔ سچ پوچھئے تو وہ لمحہ کسی فلمی سین سے کم نہ تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ یہاں ہیرو اصلی تھا، اور ولن یعنی بھارت، اسکرپٹ پڑھتے پڑھتے ہی بھاگ گیا۔
بھارتی وزارتِ دفاع نے ایک بار پھر اپنے پسندیدہ بہانے ’’تکنیکی وجوہات‘‘ کو کاندھے پر رکھ کر شو سے غیر حاضری کا اعلان فرمایا۔ اب یہ تکنیکی وجوہات دراصل وہی پرانی ڈکشنری سے نکلتی ہیں، جس میں ہر شرمندگی کو ’’روایتی وقار‘‘ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ایک بھارتی پائلٹ نے تو روتے ہوئے کہا، ’’میں تو ابھی فارم میں اپنے نانا کی تاریخِ پیدائش ہی ڈال رہا تھا، شو تو اچانک ہو گیا!‘‘ حالانکہ نانا کے زمانے کے جہاز آج بھی ان کی ایئر فورس میں موجود ہیں۔
بھارت نے تو دھوم دھام سے اعلان کیا تھا کہ ’’ہم آئیں گے، گرجیں گے، دکھائیں گے!‘‘ لیکن جیسے ہی اُنہیں معلوم ہوا کہ پاکستان کا جے ایف-17 بلاک تھری بھی اسی شو میں موجود ہے، اُن کے حوصلے ایسے ’’بلاک‘‘ ہوئے جیسے انٹرنیٹ پیکج ختم ہو جائے۔ بلاک تھری نے صرف فضا نہیں چیری، بلکہ بھارتی خوابوں کے بخیے بھی اُدھیڑ دیئے۔ بھارتی میڈیا چیخ چیخ کر دہائی دینے لگا جیسے اُن کے رافیل کو دلہن نے منڈپ پر انکار کر دیا ہو۔
ایسا بھی نہیں کہ پاکستانی طیارے صرف گرجے اور چمکے۔ نہیں جناب، یہ طیارے ایوارڈز بھی ایسے لپیٹ کر لے آئے جیسے مہمان شادی میں آ کر بریانی کے ساتھ چمچ بھی ساتھ لے جائے۔ سب سے پہلے ذکر ہو سی-130 ہرکولیس کا، جو عموماً فوجی سامان، سپاہی، اور کبھی کبھار کسی بزرگ کا بستر بھی لے جاتا ہے۔ لیکن اِس بار ہرکولیس نے ایسی شاندار لِوری میں انٹری دی کہ برطانوی خواتین نے سیلفیاں لیتے ہوئے کہا: ’’Beauty with the real Beast‘‘ ہرکولیس نے ’’کونکرس ڈی ایلیگینس‘‘ ٹرافی ایسے جیتی جیسے کوئی پنجابی دولہا گلابی شیروانی میں اِنٹری مارتا ہے اور پورے پنڈ کے دل جیت لیتا ہے۔
اور اب آئیے اصل تھنڈر کی طرف، یعنی جے ایف-17 بلاک تھری کی طرف، جس نے وہ کام کیا جو پچھلے سالوں میں صرف دیسی فلموں کے ہیرو کرتے آئے ہیں — آیا، گرجا، اُڑا، اور سب پر چھا گیا۔ ایسی شاندار پرواز کہ پرانے ایف-16 بھی حسد میں آ کر بولے، ’’یار تُو سچ میں نیا جنریشن ہے۔‘‘ اِس طیارے نے ’’اسپرٹ آف دی میٹ‘‘ کا ایوارڈ یوں جیتا جیسے کوئی اسکول میں پہلی پوزیشن، دوپہر کا لنچ، اور آخری پیریڈ کی چھٹی، تینوں ایک ساتھ لے جائے۔
بھارتی میڈیا کا حال اُس وقت اُس بچے جیسا تھا جس کے ہاتھ سے آئس کریم گر جائے۔ اینکرز کبھی پاکستان پر سازش کا الزام لگاتے، کبھی رافیل کو صفائی سے چمکاتے، اور کبھی سٹوڈیو میں کھڑے ہو کر یہ کہتے پائے گئے: ’’یہ شو ایئر شو نہیں، سائیکولوجیکل وار فیئر تھا!‘‘ ارے بھائی، جہاز آسمان میں اُڑے تھے، تمہاری اُمیدیں زمین میں گڑ گئیں۔
تھنڈر نے ایک اور کمال یہ کیا کہ پاکستان سے لندن تک نان اسٹاپ فلائٹ کر کے دکھائی — ایئر ٹو ایئر ری فیولنگ کے ساتھ۔ جب بھارتی پائلٹس نے یہ سُنا تو فوراً مکینک سے پوچھا، ’’یار، ہمارے جہاز میں بھی ایسا کچھ ہے؟‘‘ مکینک نے آہ بھر کر کہا، ’’سر، ہمارے تو ابھی بھی پٹرول پمپ پر ٹوکن ملتا ہے۔‘‘
آج پوری دُنیا مان گئی ہے کہ پاکستان صرف شو میں شامل نہیں، بلکہ اس کا مرکزی کردار ہے۔ سی-130 اور جے ایف-17 نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی فضائیہ صرف پرواز میں نہیں، وقار، وقوف اور طنز میں بھی نمبر ون ہے۔ بھارتی دعوؤں پر اِن ٹرافیوں کا وزن ایسا پڑا ہے جیسے ٹماٹر کی قیمت پر سبزی والے کی آنکھیں۔
آخر میں بھارت کے فضائی دوستوں کو یہی عرض ہے کہ اگلی بار صرف جہاز پالش کرا کے نہ لائیں، ساتھ میں اعصاب، اعتماد اور اینکرز کے لیے سکون آور گولیاں بھی پیک کر لائیں۔ کیونکہ جب پاکستان کے جے ایف-17 تھنڈر نے نان اسٹاپ پرواز بھری، تو بھارت میں صرف فیول ہی نہیں، حوصلے بھی لو ہو گئے۔ بھارتی پائلٹس حیران، تجزیہ کار پریشان، اور میڈیا والوں کے چہرے ایسے لٹک گئے جیسے تھنڈر نے شو کے ساتھ ساتھ اُن کے موبائل کا فرنٹ کیمرہ بھی خراب کر دیا ہو۔
ایئر شو میں جب پاکستانی طیاروں نے فضا چیر کر پرواز کی، تو بھارت کے دِل دہل گئے، پلکیں جھپکنا بھول گئے، اور کچھ تو گھر جا کر پنکھے کو گھورنے لگے کہ ’’کیا تُو بھی تھنڈر ہے؟‘‘ اِس بار صرف طیارے نہیں اُڑے، بھارت کی اُمیدیں، انا، اور بڑھکیں بھی اُڑ گئیں — اور ہَوا میں گونجی صرف ایک گرجدار صدا: جے ایف-17 تھنڈر — جو آیا، گرجا، چھا گیا!

