Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آزادکشمیر ٹورازم اتھارٹی، خدشات و تحفظات – پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

آزادکشمیر ٹورازم اتھارٹی، خدشات و تحفظات – پروفیسرعبدالشکورشاہ

 

سیاحت کاشعبہ عالمی معیشت میں 7.6$ ٹرلین ڈالرز سے زیادہ کی شراکت داری کرچکا ہے جو عالمی جی ڈی پی کا10.2% بنتی ہے۔ چند سال پہلے سیاحت نے292ملین نوکریاں تخلیق کی۔شمالی علاقہ جات میں سیاحت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔پاکستان ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق50ملین سے زیادہ مقامی سیاح متوقع ہیں۔سیاحوں کی اتنی بڑی تعدادی اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاحت کا شعبہ ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ استعداد رکھتا ہے۔ ورلڈ ٹورازم کونسل کے مطابق سیاحت کے شعبے نے 2019کے دوران قومی جی ڈی پی میں 5.9%اضافہ کر تے ہوئے3.9ملین نوکریاں تخلیق کی۔ اگر ہم اپنی سیاحت کو چین کی سطح تک لے آئیں تو قومی جی ڈی پی میں اس کی شراکت5.1%سے بڑھ کر 11%ہو جائے گی اوریہ شعبہ2.37ملین اضافی نوکریاں بھی تخلیق کرے گا۔ کشمیر ارضی جنت کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔کشمیر کی خوبصورتی کو دنیا کی کوئی زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔ آزادکشمیر میں 100سے زیادہ ثقافتی ورثہ اور آثار قدیمہ کے مقامات موجود ہیں جن میں سکھ، بدھ مت،ڈوگرہ اور مغل دور کے تاریخی مقامات شامل ہیں۔ اگر ہم نقل و حمل اور رسل و رسائل کے مسائل کو حل کر لیں تو مذہبی سیاحت کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔

 

حکومت آزادکشمیر نے سیاحوں کی آسانی کے لیے آزاد سیاحتی ایپ اور سیاحتی سمارٹ کارڈکے علاوہ سپیشل ٹورازم پولیس کا شعبہ بھی قائم کر رکھا ہے۔ مظفرآباد اور میر پور میں دو عجائب گھروں پر کام جاری ہے۔ وادی نیلم وادی کاغان کے متوازی سمت میں موجود ہے۔ دونوں وادیوں کو ٹورازم اتھارٹی کے تحت مختلف مقامی راستوں کے زریعے ملا کر سیاحت کو دوبالا کیا جا سکتا ہے۔نانگا پربت کی ایک چوٹی سر والی چوٹی جو کہ 6326میٹر بلند ہے یہ بھی وادی نیلم میں موجود ہے۔  اسے آزادکشمیر کی بلند ترین چوٹی سمجھا جاتا ہے۔اگر ہم خچر ٹریک بنا لیں تو ہم بابون سر کو پتلیاں جھیل کے زریعے رتی گلی جھیل کے ساتھ ملا سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف فاصلہ کم ہو گا بلکہ مقامی افراد کو روزگار بھی ملے گا۔ رتی گلی جھیل سے ہم وادی نیلم وادی ناراں اور کاغان سے ملا ئیں اور وادی نیلم ہی کو سونٹھر ٹنل کے زریعے گلگت بلتستان سے ملا کر سیاحوں کو ایک سیاحتی سفر میں تین سیاحتی پیکچ دے سکتے ہیں۔ناراں کاغان کا سفر کرتے ہوئے سیاح رتی گلی جھیل کے راستے وادی نیلم میں داخل ہوں اور پوری وادی گھومنے کے بعد شونٹھر ٹنل کے زریعے گلگت بلتستان کی سیر کرتے ہوئے واپسی کی راہ لیں۔

 

گلگت بلتستان سے شونٹھر ٹنل کے زریعے براستہ نیلم ویلی پنڈی اسلام آباد کاراستہ دیگر تمام راستوں سے بہت کم ہے۔سیاحت کے علاوہ یہ راستہ تجارت اور دفاع کے لیے بھی استعمال ہو گا۔ شاردہ کے مقام پر موجود قدیم یونیورسٹی کی بحالی سے سیاحت کو فروغ ملے گا۔ شاردہ کے مخالف سمت میں سرگن نالہ کے ساتھ بھی ایک راستہ وادی کاغان کی طرف جاتا ہے۔اسے بھی سیاحت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔کیل کوہ پیمائی کے لیے بیس کمیپ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اڑنگ کیل سیاحتی لحاظ سے بے مثال اور پرکشش جگہ ہے۔سر والی چوٹی اور 25کلو میٹر تک پھیلے گلیشئرسے سیاح لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ گریس ویلی برزل پاس کے بالکل ساتھ واقع ہے۔ برزل وادی نیلم کو استور کے زریعے گلگت بلتستان سے ملاتا ہے۔ اس راستے کو بھی سیاحتی، تجارت اور دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آزادکشمیر ٹورازم اتھارٹی کے قیام سے چکار، زلزال جھیل، وادی نیلم، جہلم اور لیپہ میں سیاحت کو فروغ ملے گا۔ضلع پونچھ کی پیرل وادی،راولکوٹ کی بنجوسہ جھیل اور تولی پیر،منگلہ جھیل، رام کوٹ کا قلعہ اور ملحقہ اضلاع اور وادیاں بلواسطہ طور ٹورازم اتھارٹی کے قیام سے دن دگنی رات چوگنی ترقی کریں گی۔ آزادکشمیر ٹورازم اتھارٹی کے قیام سے جہاں سیاحت کو فروغ ملے گا، روزگار کے مواقع دستیاب ہوں گے اور خطہ ترقی کی منازل طے کرے گا وہاں اس اتھارٹی کے قیام پر عوامی سطح پر کچھ خدشات و تحفظات بھی جنم لے رہے ہیں جن کو دور کیے بغیر اہداف حاصل کرنا مشکل ہو گا۔

 

اس اتھارٹی کے مجوزہ مسودے کے مطابق یو ں محسوس ہوتا ہے کہ محکمہ جنگلات، معدنیات، سیروسیاحت وغیرہ اس تھارٹی کے ماتحت کام کریں گے۔ جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آزادکشمیر کے جنگلات اور معدنیات کی سمگلنگ میں اضافے ہو گا۔مجوزہ مسودے کے مطابق اس تھارٹی کا قیام کچھ سابقہ قوانین، اور شقوں کو یا تو مکمل طور پر ختم کر دے گا یا ان میں تبدیلیاں کی جائیں گی جن کی بناء پر عوامی سطح پرجنگلات، معدنیات  اورقیمتی جڑی بوٹیوں، جنگلی حیات وغیرہ کے تحفظ پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ مجوزہ مسودے کے مطابق اس اتھارٹی کے انتظام و انصرام میں عسکری تمائندگی کو شامل کیا گیا ہے جو کے درست عمل نہیں ہے۔ سول اداروں میں عسکری افراد کا برجمان ہونا سولین حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اگر ہم نے سول اداروں میں عسکری اداروں کو اختیارات دینے ہیں تو پھر سب کچھ فوج کے حوالے کر دیا جائے اور سول اداروں کو ختم کردیا جائے۔ اگر حکومت وقت کے لیے کرسی بچانے کے لیے عسکری قیادت کو شامل کرنا ناگزیر ہے تو اسے مرکز میں انتظام و انصرام تک محدود رکھا جائے۔ مجوزہ مسودے کے مطابق سیاحتی اور اکنامک زونز کے قیام اور ان میں داخلے کے لیے بیرئیر لگانا بھی عوامی سطح پر تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ مقامی افراد کو ان اکنامک اور سیاحتی زونز میں داخلے کے لیے کسی بھی قسم کی اجازت سے مستثنی قرار دیا جائے۔ مقامی سطح پر ان سیاحتی اور اکنامک زونز کا انتظام و انصرام مقامی افراد کے سپرد کیا جائے نہ کے باہر سے لاکر افراد بیٹھا دیے جائیں جن کی وجہ سے مقامی سطح پر لوگوں کی نقل و حمل متاثر ہو۔ اگر کوئی سیاحتی مقام یہ اتھارٹی لیز پر دے گی تو اس کے لیے مقامی باشندہ ہونے کی شرط لازمی قراردی جائے۔

 

سبھی سیاحتی مقامات پر مقامی افراد اپنے خاندانوں او ر مال مویشیوں کو لے کر گرمیوں کا موسم گزارنے جاتے ہیں جنہیں ہم مقامی زبان میں بہیک کہتے ہیں۔کشمیر کے مضافاتی علاقوں میں لوگوں کے روزگار کا دوسرا بڑا زریعہ غلہ بانی ہے۔ اگر ان سیاحتی مقامات کو مقامی افراد کے لیے بندیا محدود کر دیا گیا تو غلہ بانی کا شعبہ شدید متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر ان سیاحتی زون کا قیام اور ان کی بقاء بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ مقامی لوگوں کی طرز بودوباش، رہن سہن، ثقافت اور ان کی بیہکوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اگر اس اتھارٹی کے قیام سے صدیوں کی روایات اور رسم و رواج میں خلل پیدا ہوا تو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بکروال ایک اور بڑا شعبہ ہے جو صدیوں کی روایات اور ثقافت کے علاوہ حکومت کو کثیر زرمبادلہ دینے کا زریعہ بھی ہے۔ ٹورازم اتھارٹی کے قیام کے تحت قائم کیے جانے والے سیاحتی زورنز کی وجہ سے بکروالوں کی نقل و حمل شدید متاثر ہوگی جس سے ہماری روایات اور ثقافت کے ساتھ قومی خزانے کو مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ آزادکشمیر کے مضافاتی علاقوں میں طرزرہن سہن شہروں سے مختلف ہے۔ ان سیاحتی زونز کو مقامی آبادی سے دور قائم کیا جائے اور سیاحتی نقطہ نظر سے علاقہ اس زون میں شامل کیا جائے نہ کے سیاحتی زون کے نام پر شاملات پر قبضہ شروع کر دیا جائے۔کشمیرکے تمام سیاحتی علاقوں پر سب سے پہلا حق کشمیریوں کا ہے اور کسی بھی علاقے کو ان کے لیے نو گو ایریا قرار دیناظلم اور جارحیت ہے۔

 

آزادکشمیر میں کشمیریوں کے لیے بھارتی ذہنیت کا مظاہر نا کیا جائے۔ تمام تر سیاحتی مقامات کی حدود اور دائرہ کارکو پبلک کیا جائے تاکہ اس اتھارٹی کے قیام کی آڑ میں قبضہ مافیا مسلط نا ہو سکے۔ تمام سیاحتی علاقوں کے عوامی سیاسی اور سماجی نمائندوں کو اس اتھارٹی میں نمائندگی دی جائے اور مقامی سطح پر سیاحتی زونز کا تمام کنڑول مقامی ذمہ داران کے حوالے کیا جائے۔ ان زونز کے قیام کی وجہ سے، آبی، فضائی،زمینی اور ماحولیاتی آلودگی کے عوامل کو بھی مدنظر رکھا جائے کہیں  ایسا نہ ہو کہ ہم کمائی کے چکر میں خطہ کشمیر کے حسن کو تباہ کر دیں۔ ٹورازم اتھارٹی اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام سیاحتی زونز کی آمدن اسی علاقے کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے صرف کی جائے گی۔جنگلات او معدنیات کے سابقہ قوانین کو تبدیل نہ کیا جائے اور نہ ہی اس اتھارٹی کے قیام سے سابقہ قوانین کے متصادم قوانین بنائے جائیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مافیا جنگلات اور معدنیات کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگ جائے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
63842