Chitral Times

Feb 9, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب کے نظرئیے کا کہوار شاعری و موسیقی پر منفی اثر ۔(دوسرا حصہ) ۔‎  اسدالرحمن بیگ

Posted on
شیئر کریں:

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب کے نظرئیے کا کہوار شاعری و موسیقی پر منفی اثر ۔(دوسرا حصہ) ۔‎  اسدالرحمن بیگ

اب ہم یہ بھی واضح کرنا چاہیں گے کہ اس طرزِ فکر کے عالم بردار یعنی تغیر کے منحرف کس مسلم حقیقت سے کنارہ کش ہیں۔
ہم ابھی ٹکنالوجی کی بوجھل بحث کو معزرت کے ساتھ منطقی طریقے سے نتیجے کی طرف لے جانے کی کوشش کریں گے ۔ رکارڈنگ ٹکنالوجی کی دنیا میں بھی اسی قسم کا ہی ارتقاء ہوا ہے جس طرح ادبی دنیا میں ہوا ہے۔ دنیا کے کسی بھی شغبے میں ارتقائی عمل ہوتا ہے۔ اسے روکا نہیں جا سکتا ۔ 1880 کی دھائی میں اسے کیسٹ ٹیپ اور پھر سی ڈی نے بڑی حد تک بدل دیا ۔ اس کے بعد جدید انالوگ متعرف ہوا ۔

 

انالوگ سگنلز معلومات کی ایک وسیع رینج کو ظاہر کرنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ پھر ایچ ڈی اور تھری ڈی یہ دونوں کمپیوٹر ویژن ٹکنالوجی ہیں جو ڈیجیٹل تصاویر اور وڈیوز سے معلومات نکالنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہاں ہم تصاویر کی سگمنٹیش SO یعنی سٹینڈرڈ ڈیفینیشن ED یعنی Enhanc definition، مونو، اسٹریو VHS وغیرہ میں پڑھ جانے سے بہتر ہوگا کہ ایک سادہ اور اسان مثال سے سمجھا دیں۔

یہ ترقی جاننے کے لیے آ پ یوٹیوب پر ایک ہائی ڈیفینیشن کوئی بھی وڈیو اب لوڈ کر لیں ۔ پھر غور سے دیکھیں اور سنیں مثلاً سمندر کے بیچ کھڑے ایک مغربی شخص کو دیکھیں ، آپ کو اسکے پیروں سے اوپر بال گننے میں کوی دقت نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر آپ اواز کا سکل ماپنا چاہتے ہیں تو کسی ہائی ڈیفینیشن فلم میں گول چکر اڑنے والی جہاز کی اونچی آواز سنئے یا گلیوں سے گزرنے والی تیز موٹر بائیک کی اواز سنئے بہت سارے معیار کے علاوہ آواز آپ کو فاصلوں میں بٹ کر محسوس ہوگی۔ اور آپ اس object کا فاصلہ آواز سے معلوم کر سکو گے۔ یہ اڈیو کی ارتقاء ہے۔ اس ارتقاء کے ناقدین کا مطلب یہ ہوا کہ موسیقی میں شورش noise، ڈسٹورٹ، محدود فریکوئنسی ، رینج، نمی، گرمی، دھول سے متاثر ہونے والی بدنما آواز ان کی ثقافت ہے۔ انھیں مزکورہ شفاف ، روشن، واضح آڈیو نہ دی جائے ۔ انھیں بہتر کیفیت ہائی ڈیفینیشن یعنی زیادہ تفصیلی مووی نہ دیکھا دیا جائے ۔

 

اس جدید ٹیکنالوجی میں آپ کو متعدد فیچرز اور ٹولز میسر ہوتے ہیں یہ ٹولز اور فیچرز آپ کو بلکل فطری اور قدرتی اختیار بھی مہیا کرتے ہیں ۔ لیکن جس طرح بتایا گیا اصل اور بنیادی چیز آئیڈیا ہی ہے۔ آئیڈیا کی وضاحت کے تناظر میں ہمیں نہایت ہی بصیرت سے بحث میں پڑھنا پڑھتا ہے۔ آچھے آئیڈیاز اور نظریات کس قدر عظیم ہوتے ہیں انسانی قلم اس بے پناہ صفت کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ بحثیت مجموعی دنیا کی آبادی میں ابتدا سے آج تک کوئی ایک فیصد سے بھی کم لوگ اعظیم آئیڈیا و نظریات کے حامل گزرے ہونگے کہ جن کی بصیرت و ادراک اور خیالات سے آج تک معاشرہ اور سماج فیضیاب ہوتا آیا ہے ۔

ایک مغربی فلم میکر ڈینٹل ٹمس نے کیمرہ اپنے کمرے کے بیڈ سے لگا کر فلم( sex week with Wendy) بنائی، ڈینٹل ٹمس کو COVID-19 کی وجہ سے لاک ڈون کے دوران اس فلم کا خیال آیا ۔ وہ اپنے گھر میں پھنس گیا تھا اور اس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ اسے خیال آیا اور اس نے اپنے کمرے کے بیڈ سے ایک کیمرہ لگا دیا اور اپنے رشتہ دارون اور دوستوں کے ساتھ وڈیو کالز پر بات چیت کرنا شروع کردیا۔ اس نے ان کالوں کی ریکارڈنگ کی اور انھیں ایک فلم میں اڈیڈ کر کیا۔ یہ فلم اتے ہی 2023 میں عسکر ایوارڈ حاصل کر لیا۔

لہذا بنیادی اور ضروری چیز آئیڈیا ہی ہے۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ گٹار، پیانو، وائلن، ڈرم وغیرہ ہمارے ثقافت کا حصہ نہیں اور نہ ہمارے ثقافت کا حصہ بن سکتے ہیں نہ ہی انہیں ثقافت میں شامل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ ہمارے اکثر علماء ادب اس نظریے کے عالم بردار ہیں بلکہ میں نے کہوار انجمن کے کل ممبران کو اس سوچ کی حمایت کرتے سنا ہے۔ لیکن یہ کوئی فلوسفیک یا سائنٹیفک یا کوئی اور عقل و دانش کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ نہیں ہے۔

 

ایک خیال یہ ہے کہ جیرکن ایک مغربی oil can ہے جسے ہمارا ثقافت کہنا ایک احماقانہ خیال ہے۔ کیونکہ کسی بھی میوزیکل انسٹرومنٹ کے بننے میں خاص میوزیکل ارادہ اور کاوش کا شامل ہونا ضروری ہے۔ اسے ہم ایک مدلل فیصلہ کہ سکتے ہیں۔

 

ایک نظریہ اور فیصلہ یہ ہے کہ جرکین (oil can) اگرچکہ کوئی مخصوص میوزیکل انسٹرومنٹل چیز نہیں ہے اور مغربی دنیا سے آئی ہوئی تیل کا ایک ڈبہ ہے لیکن جس طرح دوسرے کئی چیزیں ہمارے ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں یہ بھی ہمارے ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ ایک بہت ہی مناسب خیال ہے۔

 

اس جیسے غلط فہمیوں کے شکار کہوار ادبی فورم سے نقط چینی ہو رہی ہے کہ گٹار، وئلن، ڈریم پیانو وغیرہ جیسے نیا اضافہ سے کہوار ثقافت کا استحصال ہو رہا ہے۔ اور کہوار موسیقی کی شناخت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس جدد سے معیاری دھنوں اور پرفیکٹ شاعری کو اور چار چاند لگا ہے۔ اور رکارڈنگ ٹکنالوجی سے آواز کی کیفیت میں انقلاب اچکا ہے۔ دنیائے موسیقی میں آج دو قسم کی تبدیلی اچکی ہے۔ ایک موسیقی نے خود کو زمانے نئے مزاج اور نئے نسل کے مطابق ڈھالنا شروع کیا ہے دوسرا اس تبدیلی میں جدید ٹکنالوجی نہایت ہی صحت کے ساتھ بڑے پیمانے پر کردار ادا کر رہا ہے۔

 

موسیقی ایک زندہ اور متحرک فن ہے اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ پرانے موسیقی میں نئے امتزاج کا اضافہ موسیقی کو ایک نئی زندگی بخش رہا ہے۔ جب نیا نسل خالص کلاسیکیت کو سُننا چھوڑ دیا تو بڑے موسیقاروں اور فنکاروں نےایک ایسا آئیڈیا پیش کیا کہ جس سے نیا نسل کلاسیک موسیقی کا دیوانہ بن گیا ۔ اور پہلے سے بھی بڑھ کر قدیم موسیقی کے وہ گانے بھی مقبول ہوگئے جو ابھی تک ایک بہت ہی قلیل طبقے تک محدود تھیں ۔ اسےہم رومان اور کلاسیکیت کا حسین امتزاج کہ سکتے ہیں۔ انے والے دنوں یا صدیوں میں زمانے کا روخ بدل جاے گا، انے والے نسل کی دلچسپی اس یکسانیت سے اٹھتا رہے گا ۔ حاضر طرزِ طریقہ ، خیال اور اصول دوران کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہونگے۔ تو نظریات و خیالات ، طرز، اصول بھی خود کو بدلنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ تبدیلی کو پسند کرتا ہے۔

 

یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں نئے اضافے ہوتے رہیں گے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم اس اضافے اور تبدیلی کو قبول کرتے ہوئے کس پرفکشن اور کاملیت کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہیں ۔
پرانے موسیقی میں کئی شاندار مثالیں موجود ہیں کوک سٹوڈیو اس حوالے سے بہت ہی بڑا کردار ادا کر رہا ہے ۔ اس پلیٹ فارم نے کلاسیکی اور لوک موسیقی کو بھی جدید انداز میں پیش کر کے نئی نسل کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

 

 

پچھلے سال ملین ووییور بنانے والے کہوار نغمہ ” ماگلاسا اوغ ٹیپ نوکو بویان ” کی کامیابی اور مقبولیت کے پیچھے یہی کچھ کارفرما تھا ۔ کہ جہاں جدید ٹیکنالوجی میں اعلیٰ آئیڈیاز سے فائیدہ اٹھایا گیا تھا۔ ورنہ انہی اسٹوڈیو میں اسی بینڈ کی طرف سے بیسیوں اور گانے گائے جاچکے لیکں وہ بری طرح ناکام ہوے اور وہ مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوے۔ کامیابی کی وجہ جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوے آئیڈیا کا کامیاب استعمال تھا۔ جس کی پہلی وجہ پرانے گانوں میں نئے امتزاج کہ جس میں گٹار کی دل موہ لینے والی آواز ، نوٹ، کوڈ، سٹریمنگ تیسری اہم وجہ ان ڈور وڈیو سیٹ اب اور اس کا مجموعی تاثر، موڈ اور بصری انداز تھا۔ اس کے علاؤہ شاعری میں اگرچکہ گہرے خیالات و معیار کم تھی روانی اور مطلع جیسے خصوصیات سے بھرپور تھی۔

 

نہایت ہی قدیم موسیقی میں نہ وہ جرکین موجود تھا نہ ہی ٹیپ ریکارڈر اگر ہم اس مخالف نظریے پر پہلے سے عمل پیرا ہوتےتو آج ہمارے گلو کاروں یعنی امیر گل، میرزاعلی جان، اقبال الدین ، بابا فتح ، وغیرہ کی آواز بھی محفوظ نہ ہوتے (جاری )

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
98279