چترال اور خودکشی – تحریر: انوار الحق
چترال اور خودکشی – تحریر: انوار الحق
ویسے تو چترال میں بڑے مسئلے مسائل ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو چترال کا سب سے بڑا مسئلہ خصوصاً نوجوان نسل میں دن بدن بڑھتی ہوئی خود کشی کی تناسب کا ہے۔گزشتہ روز ہمارے گاؤں میں ایک واقعہ پیش آیا جہاں ایک شریف النفس نوجوان نے اپنی جان لے کر خود کو اس بے رحم دنیا سے آزاد کر دیا۔اس واقعے نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کر دیا۔خود کشی کرنے کی بہت سے وجوہات ہو سکتے ہیں لیکن جو چیز سب سے زیادہ مجھے نظر آتی ہے وہ میں یہاں پر آپ سب کے ساتھ شیئر کرنے کی کوشش کروں گا۔
بحیثیت مسلمان یہ ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ اللہ تعالی ہر وقت ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔یقین جانیے کہ یہ ایمان انسان کو مشکل سے مشکل وقت میں بھی سہارا دیتا ہے۔انسان انتہائی مایوسی کے عالم میں جب یہ سوچتا ہے کہ اللہ تعالی میرے ساتھ ہے اور یہ برا وقت گزر جائے گا تو وہ اس امید کے ساتھ دوبارہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے میرے لیے کچھ بہتر ہی سوچا ہوگا۔اللہ تعالی اپنے کلام مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ”کسی بھی نفس پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا”۔
یہاں میں ایک چیز کی آپکو یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ دنیاوی اسباب کا ہونا، دنیاوی آسایشات کا میسر ہونا اپنی جگہ لیکن وہ کبھی بھی ہمارے ذہنی سکون اور خوشی سے بھری زندگی کا ضامن نہیں ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو سویزرلینڈ کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔اس ملک سے زیاده خوشحال ملک دنیا میں موجود نہیں،دنیا کی ہر قسم کی سہولیات، جدید ٹیکنالوجی، بہترین تعلیمی نظام،سب سے بہترین صحت کا نظام،عوام كو ہر قسم کی آزادی،ملک میں روزگار کا کمی نہیں، دولت سے مالامال ملک ہے لیکن سب سے زیاده خودکشی یہاں کے لوگ کرتے ہیں۔وہاں کی سركار نے لوگوں کی تکلیف کو کم کرنے لے لیے ایسی مشین بنائی ہے جس کے اندر بیٹھ کر آپ آرام سے اپنی جان لے سکتے ہیں۔یہاں پر خود سوچ لیں کہ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ لوگ کیوں اس راستے کی طرف جاتے ہیں۔میرے خیال سے ان لوگوں کو قلبی سکون میسّر نہیں ہے جو کہ صرف دین اسلام اور اللّه کے ساتھ بہترین تعلق ہونے کی صورت میں ممکن ہے۔