Chitral Times

Jan 18, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پاک۔ بھارت میزائل پروگرام: ایک تذیرواتی جائزہ -پیامبر : قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

پاک۔ بھارت میزائل پروگرام: ایک تذیرواتی جائزہ -پیامبر : قادر خان یوسف زئی

 

بھات اور پاکستان دونوں ممالک نے جدید میزائل ٹیکنالوجی پروگرام کے درمیان تزویراتی منظرنامے کو تشکیل دینے میں ایک اہم فرق نمایاں ہے، بھارت نے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع کی او ر اس مہم کو پاکستان کے خلاف جاری رکھتے ہوئے، ایک بڑا ذخیرہ جمع کیا اور میزائل ٹیکنالوجی میں رینج کو بڑھاتا چلا گیا، جبکہ پاکستا ن کے کسی بھی میزائل پروگرام کا مقصد علاقائی سیکیورٹی کے خدشات اور اسٹریٹجک دفاع کے لئے رہا اور اس نے کبھی میزائل کی اس رینج سے تجاوز نہیں کیا جو بھارت کے علاوہ کسی بھی ملک کے لئے خطرناک ہو، تاہم بھارت کے کئی میزائل کی رینج یورپ سمیت امریکہ کو نشانہ بنانے کی رینج رکھتے ہیں، یہ امر امریکہ کی جانب سے بھارت کے میزائل دفاعی نظام کے طریقہ کار اور امریکی دفاعی منصوبوں کے حوالے سے نسبتاً بے توجہی کی پالیسی کا غماز بھی ہے جو امریکی پالیسی سازوں نے پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے روا رکھی ہوئی ہے۔

 

بھارت نے اپنے میزائل ٹیکنالوجی کے سفر کا آغاز 1950کی دہائی کے آخر کیا شروع کیا، 1980 کی دہائی میں ’ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی سربراہی میں ”انٹیگریٹڈ گائیڈڈ میزائل ڈویلپمنٹ پروگرام (IGMDP)“ کے قیام سے اس پروگرام کو نمایاں تقویت ملی۔ اس پروگرام کے تحت بھارت نے کئی اہم میزائل سسٹمز کی ٹیکنالوجی میں اضافہ کیا۔ جس میں ’پرتھوی‘ جوکہ ایک مختصر فاصلے تک مار کرنے والا زمین سے زمین پر میزائل ہے، ’اگنی‘، درمیانے سے بین البراعظمی فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی ایک سیریز ہے، ’ترشول‘ ایک مختصر فاصلے تک مار کرنے والا زمین سے فضاء تک میزائل، ’آکاش‘ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا زمین سے فضاء تک میزائل کے علاوہ ’ناگ‘ ایک اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل شامل ہے۔ انٹیگریٹڈ گائیڈڈ میزائل ڈویلپمنٹ پروگرام(IGMDP) نے بھارت کی موجودہ میزائل صلاحیتوں کو بڑھانے کے مواقع فراہم کئے، جس سے بھارت کو مختلف اسٹریٹجک اور حربی مقاصد کے لیے متنوع میزائل سسٹمز تیار کرنے کا موقع ملا۔

 

پاکستان کا میزائل پروگرام جسے ’حتف پروگرام‘ کے نام سیجانا جاتا ہے، 1980کی دہائی کے وسط میں بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی کے مقابلے میں دفاع کے لئے شروع کیا گیا، اس پروگرام کو سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی مکمل و مضبوط حمایت کے ساتھ شروع کیا گیا، جس کا مقصد بھارت کے مقابلے میں میزائل ٹیکنالوجی کے خلا کو پُر کرنے کی ضرورت کے پیش نظر تشکیل دیا گیا تھا۔ پاکستان نے ابتدائی طور پر غیر ملکی ٹیکنالوجی کے حصول پر انحصار کرتے ہوئے ’سوویت اسکڈ ٹیکنالوجی‘ حاصل کی اور بعدازاں چینی DF-11 میزائل خریدے۔1990کے دہائی کے وسط میں پاکستان نے مقامی سطح پر ٹھوس ایندھن پر مبنی مختصر فاصلے کی رینج والی میزائل ٹیکنالوجی تیار کرنا شروع کردیاور پھر بھارت کے میزائل منصوبوں کے دفاع میں پاکستان نے اپنے پروگرام میں ’کروز میزائل‘ شامل کرلئے۔

 

بھارت پاس ایک جامع ذخیرہ میزائل کا موجود ہے جس میں اگنی سیریز اگنی-I (مختصر فاصلے) سے لے کر اگنی-V (بین البراعظمی فاصلے) تک کے میزائل، (جو جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں)، اس ذخیرے میں پرتھوی سیریز،،براہموس، ’کے سیریز‘، واضح رہے کہ بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی جنوبی ایشیا سے باہر اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں جو ملک کی بڑھتی ہوئی اسٹریٹجک عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔بھارت کا بیلسٹک میزائل دفاعی (BMD) پروگرام میں ’پرتھوی ایئر ڈیفنس (PAD)‘ جو کہ بلند ترین سطح پر میزائل روکنے اور ایڈوانسڈ ایئر ڈیفنس (AAD) کم بلندی پر میزائل کو روکنے کے لیے تیار کیا گیا۔ بھارت نے ان سسٹمز کا کامیاب تجربہ کیا اور اہم اسٹریٹجک مقامات جیسے کہ دارالحکومت نئی دہلی کے ارد گرد تعینات بھی کیا گیا، مزید یہ کہ، بھارت نے اپنی فضائی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے روسی S-400 میزائل دفاعی نظام بھی حاصل کیا ہے۔بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے میزائل ذخیرے شاہین سیریز،غوری سیریز،’بابر‘، اور ’رعد‘ شامل ہیں، پاکستان کی توجہ خصوصی طور پر ایسے میزائل ٹیکنالوجی کے نظام پر مرکوزرہی جو روایتی اور جوہری دونوں طرح کے وار ہیڈز لے جا سکیں۔ خاص طور پر ایسے نظاموں پر توجہ دی گئی ہے جو میزائل دفاعی ڈھالوں کو عبور کر سکیں۔ پاکستان کے لئے بھارت کا BMDپروگرام خطے میں تزویراتی توازن کے لئے چیلنج تھا، اس لئے پاکستان نے BMDپروگرام کے جواب میں ملٹیپل انڈیپینڈنٹلی ٹارگیٹ ایبل ری انٹری وہیکلز(MIRVs) پروگرام اپنایا تاکہ بھارت کے دفاعی نظام کو ناکام بنایا جا سکے۔ اس کے لئے پاکستان کی جانب سے کروز میزائل، اورحربی جوہری ہتھیار اپنائے۔

 

بھارت کے مقابلے میں پاکستان نے اپنی توجہ ملک کے دفاعی نظام کو بھارتی جارحیت کے مقابلے میں متوازن رکھنے کے لئے مرکوز رکھی۔بھارت کی حکمت عملی میں چین کو ایک علاقائی خطرے کے طور پرپیش کیا گیا جو امریکہ کے لئے ایک خصوصی کشش رکھتا ہے۔پاکستان عالمی تنازعات میں عدم مداخلت کی پالیسی رکھتا ہے جبکہ بھارت کی پالیسی میں امریکہ-روس یا امریکہ-چین کے تنازعات شامل ہیں۔امریکہ نے اپنے اسٹریجک اور نان نیٹو اتحادی ملک کی حیثیت رکھنے والے پاکستان کے خلاف مختلف ادوار میں، پابندیوں کا تسلسل برقرار رکھا اورپہلی مرتبہ ا ایک امریکی عہدیدار نے پاکستان کے میزائل پروگرام کو ”امریکہ کے لیے براہ راست خطرہ“ قرار دے دیا، جو کسی بھی زاویئے سے امریکہ مخالف نہیں ہے۔

 

پاکستانی حکام نے زور دیا کہ ان کا میزائل پروگرام صرف بھارت کے دفاعی نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ شاہین تھری اور ابابیل پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں سب سے بہترین صلاحیتوں والے میزائل سسٹمز ہیں۔درمیانی فاصلے تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل شاہین تھری 2750 کلومیٹر تک ہدف بنا سکتا ہے اور ابابیل 2200 کلومیٹر تک پہنچ سکتا ہے اور یہ دونوں میزائل ملٹیپل ری انٹر وہیکل یا ایم آر وی کہلاتے ہیں۔ پاکستان نے ابھی تک طویل فاصلے تک مار کرنے والے کسی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) کا تجربہ نہیں کیا، جبکہ بھارت 5000 کلومیٹر سے زیادہ رینج والے میزائل تیار اور ٹیسٹ کر چکا ہے۔ بھارت کے پاس یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ وہ امریکہ و یورپ کو ایٹمی ہتھیار سے نشانہ بنا سکے اور بھارت کے پاس اس وقت بھی دو ایٹمی بیلسٹک میزائل نیوکلیئر سب میرین ہیں جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ امریکی بندرگاہوں تک پہنچا کر کسی بھی امریکی ریاست پر حملہ کرسکیں۔ماہرین کے مطابق امریکہ حقائق کے بر خلاف زیادہ شکایت بیلسٹک میزائل شاہین تھری اور ابابیل سے ہے۔جبکہ میزائل کی رینج ثابت کرتی ہے کہ اس سے امریکہ کو کسی قسم کے خطرات لاحق نہیں ہیں۔

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
97537