وقت کا پکار۔ تحریر۔ اقبال حیات آف برغذی
وقت کا پکار۔ تحریر۔ اقبال حیات آف برغذی
ہے بہار باغ دنیا چند روز
دیکھ لے اس کا تماشہ چند روز
ان الفاظ کی نوعیت پر مبنی خیالات کی صداقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ مگر عملاََ اس تصور کے تقاضوں کے مماثل زندگی کے شب و روز گزار نے کا رنگ شاید کہیں نظر آتا ہو۔ہر فرو بشر “ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے “کے مصداق دنیا کی رنگینیوں اور اور رغنائشوں میں مگن ہونے کی وجہ سے اسکی بے ثباتی کے تصور کو فراموش کر تا ہے چونکہ دنیا میں محنت و مشقت کے ثمرات نظر آتے ہیں۔ اس لئے انسان پر لطف زندگی کے حصول کے لئے ہمہ وقت سر گردان رہتا ہے اور اس سلسلے میں حرام حلال کی تمیز کو بھی پھلانگنے سے گریز نہیں کر تا۔ مالی و سعت اور مال و دولت کے گھمنڈ میں آنکھیں زمین کی طرف نہیں آتیں اور اسے اپنی بڑھائی اور خوش بختی پر مامور کر تا ہے اس کے مقابلے میں آخیرت کی ابدی زندگی کے بارے میں دین اسلام جو نقشہ پیش کر تا ہے اس کی حقانیت سے انکاری کی گنجائش نہیں اور اس جہاں کی تمام تر سرخروئی دنیا میں گزرنے والی انسانی زندگی سے مربود ہے چونکہ ابدی زندگی کی کامرانیوں سے متعلقہ امور کے ثمرات پس پردہ ہونے کی بناء پر دلجمعی کے ساتھ سرگرم عمل رہنے کا جذبہ دیکھنے کو نہیں ملتا اور یوں زندگی کے حقیقی مقاصد کی بر آوری میں کوتاہی اور غفلت پر کف افسوس اس قت ملنا پڑے گا جب اس جہاں سے واسطہ پڑے گا اور اپنی کوتاھیوں کے ازالے کے لئے موقعہ ملنے کی کنجائش ختم ہو جائے گی کیونکہ زندگی بار بار نہیں ملتی اور یوں “اب پچھتاوئے کیا ہوت جب چڑیان چگ گئیں کھیت کی کیفیت سے دوچار ہونا پڑے گا “۔
عباسی حکمران ھارون الرشید ایک دفعہ شکارسے آرہے تھے راستے میں ایک جگہ اس وقت کے نامور درویش بہلول دانا (جو دیوانہ نام سے مشہور تھے) ایک دینار کے عوض جنت میں ایک عالیشان مکان دینے کا اعلان کر رہے تھے خلیفہ وقت یہ سن کر مسکراتے ہوئے دیوانہ کہکر گزر جاتے ہیں اور اسکے پیچھے آنے والی اس کی عظیم شریک حیات زبیدہ بیگم بہلول دانا کے اس تقاضے کی بر اوری کرتی ہوئی اونٹ کی سواری سے نیچے اتر کر ایک دینار اس کے ہاتھ میں تھماتی ہیں۔ اسی رات خواب میں خلیفہ جنت کی سیر کر تے ہیں۔ اور ایک جگہ قصر زبیدہ نام کی ایک عالیشان عمارت پر اس کی نظر پڑتی ہے۔ اپنی اہلیہ کے نام سے موسوم تصور کر کے اندر جانے کی خواہش میں جب دروازے پر پہنچتے ہیں تو وہاں ڈیوٹی پر مامور فرشتے انہیں یہ کہتے ہوئے اندر جانے نہیں دیتے کہ یہ مکان صرف زبیدہ کے لئے مخصوص ہے۔ خواب سے بیدار ہو کر جب اپنی اہلیہ سے اس کی کسی خاص نیکی کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو وہ انہیں بہلول دانا کو دینار دینے کے بارے میں بتاتی ہیں۔ خلیفہ وقت فوراََ ایک دنیار لیکر بہلول دانا کے پاس جا کر اپنے لئے بھی جنت میں گھر کا تقاضا کر نے پر بہلول دانا دینار لینے سے انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جنت کو دیکھنے کے بعد سودنے کی گنجائش نہیں ہو سکتی یہ واقعہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ابدی زندگی کو لطف اندوز بنانے کیلئے دنیا کی چند روزہ زندگی کو احکامات خداوندی کے رنگ میں رنگین کر نے سے مشروط ہونے پر دلالت کر تاہے اور اس سلسلے میں ابدی زندگی کی درخشان کے حصول کے سلسلے میں اپنے علمائے کرام کی طر ف سے دی جانے والی ترغیبات پر عمل پیرائی میں کوتاہی اور غفلت سے گریز کرنا چاہئے۔
خدا کرے کہ ہم سب کے دل میں ا تر جائے یہی بات۔ آمین