
وفاقی وزیر تجارت سے اقوام متحدہ کے زرعی خوراکی وفد کی ملاقات، غذائیت، تجارت اور جغرافیائی اشاریہ جات میں اصلاحات، چترال دیامرودیگرعلاقوں کے چلغوزہ پائن نٹس کے بین الاقوامی برانڈنگ کے حوالے سے تبادلہ خیال
وفاقی وزیر تجارت سے اقوام متحدہ کے زرعی خوراکی وفد کی ملاقات، غذائیت، تجارت اور جغرافیائی اشاریہ جات میں اصلاحات، چترال دیامرودیگرعلاقوں کے چلغوزہ پائن نٹس کے بین الاقوامی برانڈنگ کے حوالے سے تبادلہ خیال
جن کا مقصد ان اشیاء کی بین الاقوامی برانڈنگ اور دیہی آمدنی میں اضافے کو ممکن بنانا ہے۔
اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ )وفاقی وزیر تجارت، جام کمال خان سے اقوام متحدہ کے زرعی خوراکی اقتصادیات ڈویڑن کے ڈائریکٹر، مسٹر ڈیوڈ لیبورڈ کی سربراہی میں آئے وفد نے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان کے زرعی خوراکی نظام میں اصلاحات کے لیے مشترکہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔یہ ملاقات اقوام متحدہ کی زیر سرپرستی جاری ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ تھی، جس کا مقصد قومی غذائی اہداف سے تجارتی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنا، خوراکی نظام میں پائیداری لانا، اور پاکستان کی زرعی برآمدی صلاحیت کو فروغ دینا ہے۔وفد نے وزیر کو“یو این جوائنٹ فرنٹ”کے تحت جاری کوششوں سے آگاہ کیا، جس کا مقصد ملک بھر میں خوراک کی پیداوار میں موجود کمی اور زیادتی کی نشاندہی کر کے صحت مند خوراک تک رسائی بہتر بنانا ہے۔اس منصوبے کے تحت موجودہ گھریلو اور قومی سطح کے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے، نو ماہ کے اندر ایک بجٹ کے اندر رہتے ہوئے عملی پالیسی سفارشات تیار کی جائیں گی، جو صحت عامہ، روزگار، تجارت اور ماحولیاتی نتائج کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
اس دوران مختلف صوبوں کی غذائی ضروریات اور پیداوار کے حالات کا خاص خیال رکھا جائے گا۔مسٹر لیبورڈ نے ڈیٹا پر مبنی ماڈلنگ کے ذریعے پالیسی سازی میں سائنسی بنیادوں پر فیصلے کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا کہ غیر متوازن خوراک، خاص طور پر چکنائی اور مصنوعی اشیاء پر انحصار، صحت کے مسائل اور کم پیداواری صلاحیت کا سبب بن رہے ہیں، اور اس رجحان کو بدلنے کے لیے خوراک کی فراہمی اور صارف کے رویے دونوں پر کام کرنا ضروری ہے۔وفاقی وزیر جام کمال خان نے منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے پاکستان میں بڑھتے ہوئے غذائیت کے بحران پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ صرف خوراک کی دستیابی کا نہیں، بلکہ صحت بخش متبادل کی آگاہی اور رسائی کا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں اور بچوں میں۔انہوں نے ایسی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جو صحت مند خوراک کو فروغ دیں اور ساتھ ہی پائیداری اور تجارتی مسابقت کو بھی یقینی بنائیں۔ملاقات کے دوران جغرافیائی اشاریہ جات (GIs) سے متعلقہ جاری تعاون کا بھی جائزہ لیا گیا، خاص طور پر شیرانی، چترال، وزیرستان اور دیامر کے چلغوزہ پائن نٹس جیسے علاقائی مصنوعات کی رجسٹریشن اور فروغ کے حوالے سے۔ FAO کی معاونت سے ان مصنوعات پر کئی قومی ورکشاپس اور فیلڈ وزٹس کیے جا چکے ہیں، جن کا مقصد ان اشیاء کی بین الاقوامی برانڈنگ اور دیہی آمدنی میں اضافے کو ممکن بنانا ہے۔
وزیر نے قومی معیار اور WTO کے تقاضوں کے مطابق ضوابط میں بہتری کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ ضابطوں کے نفاذ کی کمی غیر رسمی مارکیٹوں کو فروغ دیتی ہے، جس سے باضابطہ شعبہ متاثر ہوتا ہے۔انہوں نے“گرین پاکستان انیشیٹو”کی مثال دی، جہاں زرعی سرمایہ کاری پر عائد زیادہ ٹیکسز نے نجی شعبے کی دلچسپی کو کم کر دیا ہے۔ملاقات کے اختتام پر وفاقی و صوبائی سطح پر بہتر ہم آہنگی کے لیے ایک اسٹیئرنگ کمیٹی اور تکنیکی ورکنگ گروپس کے قیام پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں فریقین نے مرحلہ وار اور مشترکہ طریقہ کار اپنانے کے عزم کا اعادہ کیا—جس کا آغاز ڈیٹا جمع کرنے اور تجزیے سے ہو گا، اور پھر قابل عمل پالیسی اصلاحات کی طرف بڑھا جائے گا، جو غذائی تحفظ، صحت عامہ اور تجارتی ترقی کو فروغ دیں گی۔یہ ملاقات پاکستان کے لیے ایک پائیدار، جامع، اور بین الاقوامی سطح پر مسابقتی زرعی خوراکی نظام کی تشکیل کی سمت ایک اہم پیش رفت قرار دی گئی—جس کی بنیاد عالمی تعاون اور قومی سطح پر مضبوط قیادت پر رکھی گئی ہے۔