
وسائل کا بے دریغ استعمال ….محمد شریف شکیب
معروف سائنسی جریدے لین سیٹ کی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ انسانی آبادی میں کمی واقع ہورہی ہے اس صدی کے اختتام تک آبادی میں ایک ارب سے زائد کی کمی آئے گی ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ماحولیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجہ انسانی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ نہیں بلکہ انسانوں کا دستیاب وسائل کا بہت تیز رفتاری اور بے دردی سے استعمال ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آ چکا ہے کہ آج انسانوں کی اوسط عمر بہت بڑھ گئی ہے، زمین پر انسانی آبادی میں بوڑھوں کا تناسب کافی بڑھ چکا ہے اور اوسط شرح افزائش بھی کم ہو رہی ہے۔رواں صدی کے آخر تک دنیا کے ہر ملک کی آبادی کم ہونا شروع ہو چکی ہو گی۔ تحقیق سے اخذ کردہ نتائج کے مطابق اگلی صرف چار دہائیوں میں زمین پر انسانوں کی مجموعی آبادی 9.7بلین ہو جائے گی۔ اس کے بعد دنیا کی آبادی میں کمی کا ایسا سلسلہ شروع ہو گا، جس کے نتیجے میں 2100 تک یہ آبادی کم ہو کر 8.8 بلین رہ جائے گی۔ موجودہ صدی کے آخر تک زمین پر انسانی آبادی میں مجموعی طور پر 1.5 بلین کی کمی دیکھنے میں آئے گی۔ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک چین کی آبادی میں بھی واضح طور پر کمی ہو گی۔بھارت دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور افریقہ میں نائجیریا کا شمار بھی دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں ہونے لگے گا۔ترقی یافتہ ممالک گذشتہ پچاس ساٹھ سالوں سے خاندانی منصوبہ بندی کے قانون پر سختی سے عمل پیرا ہیں امریکہ، جاپان، ناروے، سپین، ہالینڈ، آسٹریا، جرمنی، آسٹریلیا، فرانس، یونان اور برطانیہ سمیت بیشتر ترقی یافتہ ملکوں میں چار افراد پر مشتمل خاندان کا تصور ہے جن میں ماں باپ اور دو بچے شامل ہیں۔آبادی کم ہونے کی وجہ سے ان ممالک کے شہریوں کو تعلیم اور صحت کی بہترین سہولیات میسر ہیں یونیورسٹیوں سے فارع ہونے والے بیشتر نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں اور جب تک روزگار نہیں ملتا۔ بے روزگار نوجوانوں کو حکومت کی طرف سے بے روزگاری الاونس ملتا ہے۔وہاں بچوں کی افزائش، دیکھ بھال، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی زمہ داری ہوتی ہے۔ان کے مقابلے میں ترقی پذیر اور غریب ممالک اپنے وسائل بڑھانے کے بجائے آبادی میں اضافے پر زور دے رہے ہیں ہمارے ہاں اوسط خاندان آٹھ سے دس افراد پر مشتمل ہوتا ہے جن میں دادا، دادی اور ماں باپ کے علاوہ چھ بچے شامل ہوتے ہیں دیہی علاقوں میں دو، دو اور تین تین شادیوں کا رواج ہے ہر خاندان میں دس بارہ بچے ہوتے ہیں یہاں بیٹیوں پر بیٹوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ جس شخص کے سات آٹھ بیٹے ہوں اسے متمول خاندان تصور کیا جاتا ہے۔بعض گھروں سے فٹ بال اور کرکٹ کی پوری ٹیمیں نکلتی ہیں۔زیادہ بچے پیدا کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انہیں مناسب تعلیم اور تربیت نہیں دی جاسکتی،بچپن سے ہی انہیں گھر داری پر مجبور کیا جاتا ہے جواں ہوکر ان میں سے کوئی موچی بنتا ہے کوئی لوہار، کوئی دیہاڑی دار مزدور، کوئی آٹو ورکشاپ میں چائلڈ لیبر کے طور پر کام کرتا ہے تو کوئی بکریاں چراتا ہے کوئی پلاسٹک کا تھیلا پکڑے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے کاغذ، گتے، لوہے کے ٹکرے، پلاسٹک کی بوتلیں اور باسی روٹیوں کے ٹکڑے چنتا اورانہیں بیچ کر خاندان کی کفالت کرتا ہے۔گذشتہ پچاس سالوں میں پاکستان کی آبادی پانچ کروڑ سے بائیس کروڑ تک پہنچ گئی ہے آئندہ پچاس سالوں میں ہماری آبادی پچاس کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔ہمارے وسائل ایک دو تین چار کے تناسب سے بڑھ رہے ہیں جبکہ آبادی دو، چار، آٹھ اور سولہ کے تناسب سے بڑھ رہی ہے۔آبادی کی شتر بے مہار شرح افزائشپر کنٹرول کے لئے کسی حکومت نے سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔ یہاں تو مردم شماری بھی مقررہ وقت پر نہیں ہوتی۔18سال بعد 2018میں جو مردم شماری ہوئی ہے اس میں ملک کی آبادی کو بیس کروڑ بتایا گیا ہے تاہم غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی آبادی 25کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ محدود وسائل والے ملک میں جب آبادی حد سے زیادہ ہوگی تو لامحالہ لاقانونیت ہوگی، چوری، ڈکیتی، رہزنی، اغواء برائے تاوان اور لوٹ مار کے واقعات ہوں گے کیونکہ انسانوں کو زندہ رہنے کے لئے نان نفقہ تو درکار ہوتا ہے جو قانونی طریقے سے نہ ملے تو غیر قانونی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں یہی انسانی معاشرے کا دستور صدیوں سے رائج ہے اور ابد تک یہی دستور رہے گا۔