بسم اللہ الرحمان الرحیم
مشرقی اُفق – رہنما ئے اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم – میر افسرامان
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے”یقیناً تمھارے ہر اس شخص کے لیے اللہ کے رسولؐ میں بہترین اسوہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی اُمید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو“ (سورۃالحزاب۔ آیات21) قرآن میں ہے”اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبرؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنو! تم بھی پیغمبرؐ پر دوراور سلام بھیجا کرو(سورۃ الحزاب۔ آیت56) حضرت عائشہؓ ام المومنین سے صحابہؓ نے رسولؐ اللہ کے اخلاق بارے معلوم کیا تو آپؓ ؓ نے جواب دیا بس قرآن ہی آپؐ کا اخلاق تھا۔
آپ ؐکے والد کا حضرت نام عبداللہ تھا۔ عبدالمطلب کی اولاد میں حضرت عبداللہ ؓسب سے زیادہ خوبصورت تھے۔حضرت عبداللہؓ کی شادی حضرت آمنہؓ سے ہوئی۔ عبدالمطلب نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہؓ کو کھجور کی تجارت کے لیے مدینہ بھیجا۔ آپ مدینہ میں ہی فوت ہو گئے۔اس وقت اُن کی عمر پچاس سال تھی۔رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں شعبہ بنی عاشم کے اند ر9ربیع الاول ۱ عام الفیل یوم دو شنبہ کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔ اس وقت 21 یا22 اپریل571ء کی تاریخ تھی۔ دلادت کے بعد آپؐ کی والدہ محترمہؓ نے عبدالمطلب کے پاس پوتے کی خوشخبری بھیجوائی۔ وہ شادماں ہوئے اور آپ ؐ کو خانہ کعبہ میں لے جاکر اللہ تعالیٰ سے دعاکی۔ اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد آپؐ کام محمدؐ رکھا۔ اُس زمانے کے دستور تھا، عربی زبان کو صحیح طریقے سے سیکھنے اور شہر کی بیماریوں سے دوردیہات میں بچوں کو بھیج دیتے تھے۔ پھر اسی رواج کے مطابق شہر سے دور بدوی خاتون حلیمہؓ کے حوالے کیا۔ رضاعت کے دوران حضرت حلیمہؓ ایسے ایسے مناظر دیکھ کرحیرت زدہ رہ گئیں۔ فرماتی ہیں کہ جب بچے کو گود لیا تھا توحا الات ابتر تھے بعد میں وہ بہتر ہوگئے۔ جب دو سال پورے ہوئے تو بچے کا دودھ چھڑوا کر اُس کی والدہ کے پاس مکہ لی گئی۔ کیونکہ اس بچے کے ہمارے پاس رہنے سے ہمارے گھر پر برکتیں نازل ہوئی تو میری خواہش تھی کہ بچہ ہمارے پاس کچھ مدت مذید رہے۔
میں نے بچے کی والدہ سے کہا، مکہ میں بیماری لاحق ہو سکتی ہے، لہٰذا بچے کو کچھ دن ہمارے پاس رہنے دیں۔ آپُ کی والدہ اس پر راضی ہو گئی، تو ہم بچے کو وپس اپنے پاس لے آئے۔ولادت کے چھوتے یا پانچویں سال واقعہ شق صدر پیش آیا۔ جسے حضرت انسؓ نے صحیح مسلم کے مطابق اس طرح بیان کیا۔ رسولؐ اللہ کے پا س حضرت جبرائیل آئے۔ آپ بچوں میں کھیل رہے تھے۔ حضرت جبرائیل نے آپ کو پکڑ کر لٹایا اور سینا چاک کر کے دل نکالا۔ پھر دل سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے، پھر دل کو ایک طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا اورپھر اس کو جوڑ کر اس کی جگہ لگا دیا۔ اس وقعہ کو دیکھ کر دوسرے بچے ماں کے پاس پہنچے اور کہا کہ محمدؐ کو قتل کر دیا گیاہے۔ گھر کے تمام لوگ چھٹ پٹ وہاں پہنچے اور دیکھا کہ آپ ؐ کا رنگ اُترا ہوا ہے۔ اس واقعہ سے گھبرا کر حضرت حلیمہؓ نے آپ ؐ کو جب آپؐ چھ سال کے تھے تو آپؐ کی والدہ کے حوالے کر دیا۔ابن ہشام کا بیان ہے کہ عبدالمطلب کے لیے کعبہ کے سائے میں فرش بچھایا جاتا۔ اس لے سارے لڑکے فرش کے ارد گردبیٹھ جاتے۔ جب رسولؐ اللہ تشریف لاتے تو سیدھے عبدالمطلب کے ساتھ فرش پربیٹھ جاتے۔ آپ کے چچا آپؐ کو پکڑ کر فرش سے دور کرتے، تو وبدالمطلب اُنہیں ایسا کرنے سے روکتے اور کہتے اسے چھوڑ دو،اس شان نرالی ہے،بلکہ ان کی حرکت دیکھ کر خوش ہوتے اور پھر اپنے ساتھ فرش پر بیٹھا لیتے۔ آپؐ بکریاں بھی چرانے لے جاتے تھے۔آپؐ اپنے چچوں کے ساتھ مل کر تجارت بھی کرتے تھے۔ عبدالمطلب کی وفات کے بعد آپؐ کو شفیق چچا ابوطالب نے اپنے پاس رکھا۔ رسولؐ اللہ جب پچیس سال کے ہوئے تو شراکت کی بنیاد پر مکہ کی تاجرہ حضرت خدیجہؓ کے مال تجارت لے کر شام گئے۔ جب واپس آئے تو حضرت خدیجہؓ آپؐ کی ایمانداری سے متاثڑ ہوئیں۔ کچھ مدت بعد آپؐ سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ کی شادی کے وقت آپؐ کی عمر پچیس سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی۔
آپؐ نے غور خوص کی خاطر غارا حرا میں تنہائی کے دن گزارنے شروع کیے۔ پھر جن تنہائی کا تیسرا سال ہو گیا تو ایک دن حضرت جبرائیل آپُ کے پاس اللہ کا پیغام لے کر آئے۔ یہ دن ابو قتادہ کی روایت کے مطابق، جب رسولؐ اللہ سے دو شنبہ کے دن کے روزے کی بابت دریافت کیا گیا توآپ ؐنے فرمایا،یہ وہ دن جن دن میں پیدا ہوا۔ اور جس دن مجھے پیغمبرؐ بنایا گیا اور جس دن مجھ پر وحی نازل کی گئی۔ صحیح مسلم۔ جلد 1 صفحہ 368،مسند احمد جلد 5 صفحہ.297جب آپؐ غار حرا میں تھے تو حضرت جرائیل ؑ آپ ؐکے پاس وحی لے کر آئے۔ آپؐ سے کہا کہ پڑھو! آپؐ نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے آپ کو پکڑ کر اس زور سے دبوچا کی میری قوت نچوڑ دے۔ پھر چھوڑ کر کہا پڑھو! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے دوبارا پکڑ کر دبوچا۔ پھر چھوڑ کر کہا پڑھو! میں نے پھر کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے تیسری بار پکڑ کر دبوچا۔پھر چھوڑ کر کہا۔”پڑھواپنے رب کے نام سیجس نے پیدا کیا انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھو اور تمھارا نہایت کریم ہے“گھر واپس آکر حضرت خدیجہؓ سے کہا مھے ڈر لگ رہا ہے۔ حضرت خدیجہؓ آپؐ کو اپنے چچرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور سارا ماجرا سنایا۔ ورقہ بن نوفل نے کہا کہ یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے حضرت موسیٰ ؑپر نازل کیا تھا۔ورقہ بن نوفل نے کہا کہ آپؐ کو اپنی قوم
ملک سے نکال دے گی۔ کاش میں زندہ ہوتا تو آپ ؐ ؐ کی مدد کرتا۔ پھر آپؐ پر سورۃ مدثر کی آیات”اے(محمد) جو کپڑا لپٹے پڑے ہو۔ اُٹھو اور ہدایت کر دو۔ اور اپنے رب کی بڑھائی کرو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور ناپاکی سے دور رہو اور(اس نیت سے) احسان نہ کرو کہ اس سے زیادہ کے طالب ہو۔ اور اپنے رب کے لیے صبر کو“ تک نازل ہوئی۔ آپؐ پر شروع میں جو آیات نازل ہوئیں وہ توحید رسالت اور آخرت کے متعلق تھی۔آپؐ نے تین سال تک چھپ کردارالرقم میں، اللہ کے دین کی تبلیغ کی۔ سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ، حضرت زید ؓبن حارثۃ اورحضرت علیؓ بن ابو طالب نے اسلام قبول کیا۔حضرت ابو بکر بھی پہلے ہی دن مسلمان ہو گئے۔
حضرت ابو بکرؓ کی تبلیغ سے حضرت عثمانؓ،حضرت زبیرؓ بن العوام، حضرت عبدالرحمان ؓبن عوف،حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص، حضڑت طلحہؓ بن عبیداللہ اسلام لائے۔ پھر اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنے قرابت داروں کو دعوت دو۔ اس پر آپ ے بنو عاشم کو کھانے پر بلا کر دعوت دی۔ پھر کوہ صفا پر چڑھ کر رواج کے مطابق اعلان کیا، یا صبحا! یا صحا! یعنی صبح کا خطرہ۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو اُن سے کہا کہ اگر میں آپ حضرات سے کہوں کہ پہاڑ کی اس طرف سے دشمن تم پر حملہ کرنے والا ہے، تو آپ میری بات پر یقین کرو گے۔ سب نے کہا کہ آپؐ سچے ہیں آپ کی بات پر یقین ہے۔ آپؐ نے کہا بتوں کی عبادت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ ایسا کہنا تھا کہ سب آپؐ کے مخالف ہوگئے۔ مکہ کے ہر گھر میں جب کوئی نہ کوئی اسلام لانے لگا تو قریش، ابوطالب کے پاس شکایت لے آئے، کہ ان کو اس کام سے روکو۔ آپ نے رسولؐ باللہ سے کہا کہ قریش کے سرداروں نے آپؐ کی شکایت کی ہے۔آپ نے اپنے چچا ابو طالب سے کہا کہ یہ میرے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے ہاتھ میں سورج بھی رکھ دیں، میں اللہ کے دین کی تبلیغ نہیں چھوڑوں گا۔ قریش حج کے موقع پر حاجیوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے بھی روکتے تھے۔
قریش نے رسولؐ اللہ سے محاذآرائی شروع کی۔ جو بھی ایمان لاتا، اس پر ظلم کرتے۔حضرت بلالؓ کو اُمیہ بن خلف تپتی ریت پر لٹاتے۔ حضرت سمیہؓ کو ابوجہل نے برچی مار کر شہید کیا۔ آل یاسر، حضرت عثمانؓ اور دیگر صحابہؓ پر مظالم کی حد کر دی۔ رسولؐ اللہ اپنے صحابہؓ کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس چلے جانے کا کہا کہ وہ نیک اور عادل بادشاہ تھا۔ صحابہؓ نے دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔قریش حبشہ بھی تحائف لے کر پہنچ گئے اور صحابہ ؓ کو واپس کرنے کا کہا۔ مگر حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے صحابہ کو قریش کے حوالے نہیں کیا اور کہا کہ چین سے یہاں رہو۔حضرت حمزہؓ اور حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو کھل کر تبلیغ کرنے کی ہمت ملی۔ جب مکہ والوں نے رسولؐ اللہ کی بات نہیں مانی تو آپ ؐ طائف والوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے گئے۔ مگر انہوں نے شریر بچے آپ کے پیچھے لگا دیے۔ بچوں نے آپ پتھر برسائے۔ آپ ؐ لہوہو لہان ہو گئے۔ اللہ نے پہاڑوں کے فرشتے کو ٓاپ ؐ کے پاس بھیجا۔ فرشتے نے کہا کہ آپ ؐ حکم کریں، میں ان دو کوپہاڑوں کے درمیان پیس دیتا ہوں مگر آپؐ نے ایسا نہیں کیا اور فرمیا کیا پتہ ان کی نسلوں سے کو مسلمان نکل آئیں۔
رسولؐ اللہ کو خاندانِ بنو ہاشم کے ساتھ تین سال شعبہِ ابوطالب میں محاصرے میں رکھا گیا۔ ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات پر رسولؐ اللہ پر مصیبتیں اور زیاہ ہو گئیں۔ رسولؐ اللہ کا دل بڑھانے کے لیے اللہ نے ایک رات رسولؐاللہ مکہ کی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک معراج کا سفر کرایا۔
حضرت معصبؓ کی محنت سے مدینہ میں آپؐ کی وعو ت پہنچی۔گیارویں نبوت موسم حج جولائی 620ء میں کو یثرب سے چھ سعادت مند افراد جومدینہ کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے آپ سے عقبہ کی گھاٹی میں مل کر بیعت کر کے اسلام کے دست و بازوو بن گئے۔پھر جون 622ء کو دوسری بیعت عقبہ ہوئی۔ اس پر قریش کے کان گھڑے ہو گئے۔ قریش نے میٹنگ کی اور ہر قبیلہ سے ایک نوجوان کو منتخب کیا اور یک باریگی سے رسولؐ اللہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔
اس خیال سے بنو ہاشم سب قبیلوں سے لڑ نہیں سکیں گے اور خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں گے۔ اللہ نے ا پنے پیغمبرؐ کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ آپ ؐحضرت ابو بکرؓ کو ساتھ لے کر پہلے غارثور گئے۔ پھر مدنیہ کو ہجرت کر گئے۔23 دسمبر622ء کو آپ قبا ء پہنچے۔ جب مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو پورا مدینہ اُمنڈ آیا۔ مدینہ میں رسولؐ اللہ نے اسلام کی تعلیمات کے مطابق نیا معاشرہ ترتیب دیا۔ مسجد نبوی کی بنیا رکھی۔ مسلمانوں میں بھائی چارہ قائم کیا۔ مدینہ کی تجارت پر یہود سود خوروں کی اجارا داری ختم کر کے اسلامی طریقوں پر تجارت کرنے کے لیے مسجد نبوی کے برابر تجارتی مارکیٹ بنائی۔ کفار مکہ نے رسولؐ اللہ کو مدینہ میں بھی چین سے نہیں رہنے دیا۔ اللہ نے قرآن شریف میں جنگ کے اجازت دی”جن لوگوں سے جنگ کی جا رہی ہے، انہیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مضلوم ہیں اور یقیناًً اللہ ان کی مدد پر قادر ہے“۔سورۃ الحج آیت 39۔کفار مکہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے مہاجرین کو کئی معرکوں پر بھیجا۔کئی معرکوں میں آپؐ خود بھی تشریف لے گئے۔
اس کے بعد اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ غزہ بدرکبریٰ پیش آیا۔ ابوسفیان تجارتی قافلہ لیے مکہ کی طرف روانہ تھا۔ جب مدینہ کے قریب پہنچا تو اس نے قافلہ کی حفاظت کے مکہ ایک شخص کو بھیجا۔ اس نے رواج کے مطابق اپنے اونٹ کا کجاوہ الٹ دیا اور قافلہ کی مدد کے لیے شور مچایا۔ مکہ کے سرداران قریش قافلہ کی حفاطت کے لیے، ابوجہل بن ہشام کی سرداری میں تیرہ سو نوجوانوں، سو گھوڑوں، چھ سو زریں اور کثیر تعداد میں اونٹ اور ساتھ گانے بجانے والی لونڈیاں اور شراب میں بدمست، یہ لشکر مکہ سے اِتراتے ہوئے روانہ ہوا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے رسولؐ اللہ نے ایک اعلیٰ فوجی مجلس منعقد کی۔ کچھ لوگ خون ریزی کا سن کر کانپ اُٹھے۔ اس موقعہ پر حضرت ابو بکوؓ، حضرت عمرؓ اور مقدادؓ بن عمرو اُٹھے اور کہا آپؐ کو اللہ نے جو حکم دیا ہے اس پر عمل کیجیے۔ ہم بنی اسراعیل کی طرح نہیں کہیں گے کہ ”تم اور تمھارا رب جاؤ اور ہم یہیں بیٹھے ہیں“ تم اور تمھارا پروردگار جا کر لڑ بھڑ لو، ہم یہیں بیٹحے ہوئے ہیں“ (سورۃ۔الماہدہ آیات24)۔ رسولؐ اللہ نے انصار کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہا،لوگو مجھے مشورا دو۔
انصار سمجھ گئے۔حضرت سعد ؓبن معاذ نے کہا ہم آپؐ کا شارا سمجھ گئے ہیں۔ ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں۔لہٰذا پیش قدمی کریں ہم آپؐ کے ساتھ ہیں۔حضرت سعد ؓ بن محاذ کی یہ بات سن کر رسولؐ اللہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ رسولؐ اللہ نے اسلامی لشکر کو بدر کے مقام تک حرکت دی۔ اللہ نے مومنین کی مدد کے لیے بارش برسا دی۔ یہ بارش اسلامی لشکر کے لیے رحمت اور کفار کے لشکر کے لیے زحمت بن گئی۔ اس موقعہ پر اللہ کافرمان ہے کہ”تاکہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کر دے گو یہ مجرم لوگ ناپسند ہی کریں“(سورۃ الانفال۔ آیت۔5) جنگ شروع ہونے سے پہلے کفار کے سورما سامنے آئے۔ ان کے مقابلے میں انصار کے تین مجاہدسامنے آئے۔ اس پر تکبر کرتے ہوئے مشرکینِ مکہ نے کہ ہمارے پلے کے لوگ ہمارے سامنے لائے جائیں۔ اس رسولؒ ؐ اللہ نے فرمایا عبیدہ بن حارث اُٹھو!حمزہ اُٹھو! علی اُٹھو!۔ ان کے درمیان مقابلہ ہوا۔ حضرت عبیدہؓ نے عتبہ بن ربیع کو، حضرت حمزاء نے شیبہ کو اور حضرت علی نے ولید کو جہنم رسید کیا۔اس مقابلہ کے بعد عام لڑائی شروع ہوئی۔کافر بتوں کا نعرہ لگا تے تھے اور مسلمان اللہ اکبر کے نعرے لاتے تھے۔ اللہ کے نعرے کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔آج بھی اللہ پر بروسہ کرتے ہوئے غزہ میں صلیبی اتحادی فوجوں کے مقابلے میں ”اللہ اکبر“ کا نعرہ لگاتے ہوئے ان ظالموں کا مقابلہ کر رہے ہیں،اللہ بدر کی طرح غزہ میں بھی فرشتے نازل کر رہا ہے۔
رسولؐ اللہ نے جنگ بدر کے موقعہ پر اللہ سے دعا فرمائی۔”اے اللہ۱ تو نے مچھ سے وعدہ کیا تھا۔ اُسے پورا کر۔اے اللہ! میں تجھ سے تیرے وعدے کا سوال کرتا ہوں“ اے اللہ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہو گیا تو تیری عبادت نہ کی جائے گیَ اے اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت کبھی نہ کی جائے“ اس پر وحی نازل ہوئی’‘ میں تمھارے ساتھ ہوں۔ تم اہل ایمان کے قدم جماؤ۔میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا“(سورۃ الانفال آیات۔12) اس غزوہ میں چھ مہاجرین اور آٹھ انصار کل چودہ مسلمان شہید ہوئے۔ مشرکین مقتولین کی تعداد ستر(70) تھی۔ ستر ہی قید کیے گئے۔ اس غزوہ پر مکہ والوں پر غم کے پہاڑ ٹوٹا اور مدینہ والے خوش ہوئے۔ اس غزوہ پر سوۃ الانفال میں اللہ کی طرف سے تبصرہ ہوا ہے۔ اس کے مطالعہ سے قاری کو ساری تفصیل سے آگاہی ہو سکتی ہے۔ بدر کی شکست سے مشرکین، یہود اور منافقین غم و غصہ سے جل بھن گئے۔ قرآن اس پر نقشہ کھینچا ہے کہ”تم اہل ایمان کا سب سے زیادہ دشمن یہود کو پاؤ گے، اور مشرکین کو“)سورۃ الانفال۔آیت۔(82 بدر کی شکست پر ابو سفیان اگلے سال پھر جنگ کی دھمکی دے کر گئے تھے۔ ایک مشرک خمیر بن جمہی، جو قریش کے شیطانوں میں سے تھا۔ اس کا بیٹا جنگ بدر میں قیدی بنا لیا گیا تھا۔ وہ رسولؐ اللہ کو قتل کرنے کی غرض سے مدینہ پہنچا۔ اسے پکڑ کر حضرت عمرؓ نے رسولؐ اللہ کے سامنے پیش کیا۔ رسولؐ اللہ کو وحی کے ذریعے معلوم ہوگیا تھا کہ وہ آپؐ کو قتل کرنے مدینہ آیا ہے۔ وہ رسولؐ اللہ کے سامنے چھوٹ بول رہا تھا،کہ میں اپنے بیٹے کی رہانی کی درخواست کرنے آیا ہوں۔ رسولؒ ؐ اللہ نے اس کی ساری سازش کو اس کے سامنے بیان کر دیا۔ وہ ششدر رہ گیا کہ یہ تو صرف اسے اور ایک دوسرے شخص کو پتہ تھا۔ وہ فوراً اسلام لے آیا۔ رسولؐ اللہ نے اس کے بیٹے کو رہا کر دیا۔
غزوہبدر کی شکست کے بعد یہودی قبیلہ بنو قینقاع نے دیکھا کہ مسلمانوں کا رعب بڑھ گیا ہے۔ اس یہودی قبیلے نے معاہدے کی خلاف وردی کی۔ کعب بن اشرف اس میں سب سے آگے تھا۔ یہودی قبیلے قینقاع نے اپنے بازار میں ایک مسلمان کو ناحق قتل کر دیا۔ اس پر رسولؐ اللہ نے ان پر حملہ کر دیا۔ عبداللہ بن ابی منافق کی سفارش پر انہیں سزا دینے کے بجائے مدینہ سے نکل جانے دیا گیا۔ ایک بات قابل نوٹ ے کہ غزوہ بدر کی فتح پر ایک مغربی دانشو نے کہا کہ بدر سے پہلے اسلام ایک مذہب تھا۔ بدر کی فتح کے بعد وہ ریاست مدینہ کا مذہب بن گیا۔
غزوہ بدر کے ایک سال بعد غزوہ اُھد پیش آیا۔ قریش مکہ تین ہزار کا لشکر لے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ سواری کے لیے تین ہزار اونٹ، دو سو گھوڑے اور سات سو زریں تھیں۔ اُحد کے مقام پر لشکر قریش نے پڑاؤ ڈالا۔ مسلمانوں کا لشکر ایک ہزار پر مشتمل تھا۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اپنے تیس سو ساتھیوں سمیت جنگ سے بہانہ بنا کر علیحدہ ہو کر واپس مدینہ چلا گیا۔ جنگی چال کے طور پر رسولؐ اللہ نے ایک درے پر کچھ تیر انداز مقرر فرمائے۔ ان کو ہدایات دین کہ کسی بھی طور ر اس درے کو خالی نہیں کرنا۔ مگر جب قریش کو جنگ میں شکست ہوئی اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں لگے تو ان تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔خالد بن ولید نے بارنے والی فوج کو جمع کر اس درے سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ جنگ کا نقشہ بدل گیا۔حضرت حمزہؓ اس جنگ میں شہید ہوئے۔ رسولؐ اللہ کی شہادت کی جھوٹی خبر پھیلائی گئی۔ اس جنگ کے خوف سے ابی بن
خلف مرگیا۔اس غزوہ میں مسلمان عورتوں نے شرکت کی اور زخمیوں کو پانی پلایا۔ اس غزہ میں ستر مسلمان شہید ہوئے۔قرآن نے اس جنگ پرسورۃآل عمران میں ساٹھ آیتیں نازل کیں، ان کے مطالعہ سے تفصیل معلوم ہو سکتی ہے۔
پھر شوال 5 ہجری غزوہ احزاب یعنی جنگ خندق پیش آیا۔ یہودی مسلمانوں کے بڑھتے ہو ئے قدموں سے پریشان تھے۔ چوں ناچہ یہودی قبیلے بنو نصیر قریش کے بیس لوگوں کاجتھا مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے تیار کیا۔ انہوں نے پورے عرب کا چکر لگا کر مخالفین کی فوج تیار کی۔ رسولؐ اللہ نے صحابی سلمان فارسیؓکی تجویز پر مدینہ کی حفاظت کے لیے خندق کھووائی۔ مشرکین سارے عرب کی، دس پزار اتحادی فوجوں کے ساتھ کفار مکہ مدینہ پر حملہ آورہوئے۔ جبکہ مسلمانوں فوج کی تعداد صرف تین ہزار تھی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے دل بڑھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی نشانیاں ظاہر ہوئیں۔ اس جنگ میں بھی یہودہ قبیلہ بنو قریظہ کفار کے ساتھ شریک تھا۔ اس جنگ کا سورۃ الحزاب میں ذکر ہوا ہے وہاں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔رسولؐ اللہ کی جنگی چال سے اتحادی فوجوں میں پھوٹ پڑھ گئی۔ اللہ کی مدد آئی اور ایک ذبردست طوفان نے اتحادی فوجوں کے خیمے اُ کھار دیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے فرشتوں نے اتحادی فوجوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ اس موقعہ پررسولؐ اللہ نے فرمایا، آیندہ یہ تم پر حملہ نہیں کر سکیں گے۔ اب ہم ان پر حملہ کریں گے۔ جنگ کے بعد یہودی قبیلہ بنو قیظہ کی عین جنگ کے موقعہ پر غداری کی سزا دے کر ختم کر دیا گیا۔ پھرذی قعدہ 6 ھ میں صلح حدیبیہ پیش آیا۔ جنگوں سے فراغت ملی تو رسولؐ اللہ نے اسلام کی تبلیغ کے لیے بیرون عرب بادشاہوں کو خطوط لکھے۔ حبشہ کے باشاہ نجاشی، مقوقسشاہِ مصر،شاہ فارس خسرو پرویز، قیصر شاہ روم، مینذر بن سادی، ہوذہ بن علی یمامہ، حارث حاکم دمشق اور شاہ عمان وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے بعد رسولؐ اللہ نے حدیبیہ معاہدے میں شریک صحابہؓ خصوصاً اور دوسرے کے ساتھ عمرہ قضاء ادا کیا۔
اس کے بعد غزوہ مکہ رونما ہوا۔ رسولؐ اللہ دس ہزار صحابہؓ کی لشکر کے ساتھ مکہ روانہ ہوئے۔ آپ ؐنے جنگی چال کے طور پر مکہ سے باہر مرالظہران کے مقام پر پڑھاؤ کیا اور سب صحابہؓ کو علیحدہ علیحڈہ آگ کے جلانے کا حکم دیا۔ اس سے قریش مکہ خوف زدہ ہو گئے۔ ابو سفیان اس موقعہ پر ایمان لے آیا۔ رسولؐ اللہ اپنے لشکرکے ساتھ مکہ میں شان کے ساتھ مختلف سمتوں سے داخل ہوئے۔ مکہ جنگ کے بغیر ہی فتح ہو گیا۔ معافی کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جانی دشمنوں سردارانِ قریش کو حضرت یوسف ؑکی سنت پر عمل کرتے ہوئے معاف کر دیا۔پھر عام معافی کا اعلان جاری کیا کہ، جو خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے، جو گھروں سے باہر نہ نکلے۔ جوابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے، ان سب کو معاف کیا جاتا ہے۔ رسولؐ اللہ نے حضرت بلالؓ کو خانہ کعبہ کی چھٹ پر چڑھ کر آذان دینے کا کہا۔ خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تین سو ساٹھ(360) بتوں کو توڑ دیا۔ چند دشمن دین کے لیے کہا کہ یہ خلافِ کعبہ سے بھی لپٹے ہوئے تو انہیں ہلاک کر دیا۔ ان میں بھی بعض کو صحابہؓ کی سفارش پر معافی دے دی۔
پھر غزوہ حنین پیش آیا۔اس غزوہ میں آپ ؐکے ساتھ باراہزار ا(12000) لوگ شامل تھے۔کچھ کم تربیت یافتہ تھے۔اسس جنگ میں ہوزن اور بنو ثقیف کے تیر اندازوں کی وجہ سے بڑا نقصان ہوا۔ بھگڈر مچ گئی لوگ اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔ رسولؐ اللہ پہاڑ کی چٹان کی طرح جنگ میں کھڑے رہے۔رسولؐ اللہ حضرت عباسؓ سے کہا مسلمانوں کو اکھٹا کرو۔ حضرت عباسؓ نے پکارا،اے درخت والے!یعنی بیعت رضوان والو!الے انصاریو! رسولؐ اللہ نے موقعہ پر ایک مٹھی مٹی کی دشمنوں کی طرف پھینکی۔ پھر اللہ نے ان کے چہرے بگاڑ دیے اور ان کو شکست ہوگئی۔
آخر میں غزوہ تبوک پیش آیا۔ روم و ایران اس وقت بڑی قوتیں تھیں۔مدینہ میں اُبھرتی ہوئی اسلامی قوت کو ختم کرنے کے لیے ہر قل شاہ روم نے چالیس ہزارا(40000) کا لشکر تیار کیا ہوا تھا۔سارے عیسائی دنیا کو اپنے جھنڈے تلے جمع کر لیا۔ رسولؐ اللہ نے بھی اعلان کر دیا کہ روم سے لڑائی ہیں۔ مسلمانوں تیار ہو جاؤ۔ اللہ کی طرف سے سورۃ توبہ میں اس جنگ کی تیاری پربحث ہوئی ہے۔ اس کی رفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ اس جنگ سے پہلے ہی رومی بھاگ گئے۔ پھر رسولؐ اللہ نے 9ھ کو حضرت ابو بکرؓ کو امیر حج بنا کر مکہ روانہ کیا۔ اعلان کرایا کہ آیندہ کوئی مشرک حج کو نہ آئے۔ نہ کوئی ننگا آدمی خانہ کعبہ کا طواف کر سکتا ہے۔
اگر غزوات کی بات کی جائے اور ان کا گھرائی سے مطالعہ کیا جائے تو رسولؐ اللہ ایک بہترین کمانڈر کے طور پر ان غزوات کی کمانڈ کی، یہ دنیا کی تاریخ کا ایک لازوال اور عظیم واقعہ ہے۔ رسولؐ اللہ، مالکِ کائنات کا پیغام ان کے بندوں تک پہنچا کر اس دنیا سے سے ظلم و جور ختم کر کے انصاف کا نظام قائم کرنے کے مشن پر لائے گئے تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے ہرموقعہ پرصحابہؓ کی تربیت کرتے رہے۔ جنگوں میں شکست کھانے کے بعد لوگ دین میں فوج درجوج داخل ہونے لگے۔ا للہ تعالیٰ نے رسولؐ اللہ کو اپنا پیغمبر بناتے وقت فرمایا تھا”اے(محمدؐ) جو کپڑا لپٹے پڑے ہو۔ اُٹھو اور ہدایت کرو۔(سورۃ المدثر۔آیات1۔2) پھر کیا تھا اللہ کے پیغمبرؐ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ دنیا کو واعظ ونصیحت کے ذریعے ڈارایا۔ جو واعظ ونصیحت سے نہ مانے ان کے ساتھ جنگیں کیں۔ حج الوادع کے موقع پر یہ کام انجام کو پہنچا۔ آپ نے اپنے خطبے میں ایک لاکھ چالیس ہزار(140000) صحابہؓ کے مجمع میں انسانیت کے فاہدے کی ساری ہدایت فرما دیں۔آپؐ نے فرمایا کیا میں نے آپ تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔ سارے صحابہ ؓ نے یک زبان ہو کر کہا جی ہاں آپؐ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچا دیا پھر رسولؐ اللہ نے آسمان کی طرف انگلی کر کے کہا کہ، اے اللہ تری بندے گواہی دے رہے ہیں کہ میں نے تیرا پیغام تیرے بندوں تک پہنچا دیا۔ آپ بھی اس پر گواہ رہیں۔پھر اللہ کی طرف قرآن میں کہا گیا”
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا“ (المائدہ
آیات3)۔ اس کے بعد آپ^ بیمار ہوئے۔ آپؐ12ربیع الاول11ھ کو 63 سال کی عمر میں مالکَ حقیقی سے جاملے۔ اب رہتی دنیا تک یہ ہی دین غالب رہے گا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے آخری پیغمبرؐ ہیں اور یہ دین آخری دین ہے۔ قیامت تک نہ کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اور نہ نیا دین آئے گا۔ اب اس دین کو دوسری قوموں تک پہنچانے کا کام امت مسلمہ کرے گی۔ لہذا ہمارے لیے سبق ہے کہ ہم اپنے اعمال ٹھیک کریں۔ مسلمان حکمرانوں نے اسلام کے دستور میں جتنی بھی خواہشات داخل کر دی گئیں ہیں، انہیں ایک ایک کر کے اپنے دستو ر عمل سے نکال دیں اور اپنے اپنے ملکوں میں حکومت الہیہ، اسلامی نظامِ حکومت، نظام مصطفےٰ(جو بھی نام ہو) اس کو قائم کریں او ر پھر اس اسلامی دستور کو دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ جنت کے حق دار بنیں اور جہنم کی آگ سے نجات پائیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اپنی آخری منزل جنت میں داخل ہوں۔ جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔جہاں نہ موت ہو گی نہ تکلیف ہو گی اللہ مومنوں سے راضی ہو گا اور یہی کامیابی ہے۔