Chitral Times

Dec 13, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

 مشرقی اُفق۔غزوہ بدر/یوم الفرقان۔  میرافسر امان 

Posted on
شیئر کریں:

 مشرقی اُفق۔غزوہ بدر/یوم الفرقان۔  میرافسر امان

غزوہ بدر/یوم الفرقان 17رمضان دنیا کے اندروہ دن ہے کہ جس دن حق و باطل کے درمیان جنگ ہوئی تھی اور حق باطل کے مقابلے میں کامیاب ہو تھا۔ا اسی پر مغرب کے ایک بڑے محقق نے لکھا ”بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا،مگر بدر کے بعد وہ مذہب ِ ریاست، بلکہ خود ریاست بن گیا“۔بدر کی ویہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہاں بدر بن یخلد بن النضر بن کنانہ آباد ہوا تھا۔ بعض کہتے ہیں کی بدر بن حارث نے یہاں کنواں لگوایا تھا۔ بیئر بدر کی وجہ سے اس جگہ کو بھی بدر کہنے لگے۔ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے تمام لوگوں کے لیے رحمت اللعا لمین بنا کے بھیجا ہے۔ رسول اللہ ؐ نے لوگوں کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ تمہاری مثال ایسی ہے تم پروانوں کی طرح آگ پر گر رہے ہو اور میں تمہیں اس آگ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔اس کوشش میں مکہ کے ۳۱ سال میں آپ ؐاور صحابہ  ؓ کو بہت ستایا گیا کہ رسول ؐ اللہ نے کہا دین کے معاملے میں جتنا مجھے ستایا گیا ہے کوئی اور پیغمبرؑ نہیں ستایا گیا۔ بازار کے اندر آپ ؐ  لوگوں کودعوت دیتے،
پیچھے ابو لہب لوگوں کو کہتا یہ میرا بھتیجا ہے، یہ جھوٹ کہتا ہے، خانہ کعبہ میں سجدے کی حالت میں سر پر اونٹ کی اوجھ ڈالی گئی، گردن میں چادر ڈال کرختم کر دینے کی کوشش کی گئی، دو بیٹیوں رقیہ  ؓاور ام کلثوم  ؓ کوچچا ابولہب کے بیٹوں نے طلاق دی،طائف میں لہو لہان کیا گیا، رسول ؐ اللہ کا بیٹا عبداللہ فوت ہوا تو چچاابولہب خوش ہو۔ا دوستوں کو خوشخبری دی کہ محمد ؐ ابتر ہو گیا ہے اس پر قرآن شریف میں اللہ نے فرمایا”ابولہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہوا(الھب ۱۱۱/۱)“،ابو لہب کی بیوی جو ابو سفیان کی بہن تھی رسول ؐاللہ کے راستے میں کانٹے ڈالتی تھی،آپ ؐ کے کافر پڑوسی جب آپ ؐ  گھر میں نماز پڑھ رہے ہوتے تو وہ آپ کے سرپر بکری کی بچہ دانی ڈال دیتے،چولھے پر ہانڈی چڑھائی جاتی تو بچہ دانی اس طرح پھینکتے کہ سیدھے ہانڈی میں جا گرتی،امیہ بن خلف کا وطیرہ تھا جب رسول ؐاللہ کو دیکھتا تو لعن طعن کرتااس پرآیت ”اتری ہر لعن طعن اور برائیاں کرنے والے کے لیے تباہی ہے“(الھمزۃ۔ ۱)اخنس بن شریق ثقفی بھی آپ ؐ  کو ستاتا تھا اس پر یہ آیت اتری ”تم بات نہ مانو کسی قسم کھانے والے ذلیل کی جو لعن طعن کرتا ہے،چغلیاں کھاتا ہے۔ بھلائی سے روکتا ہے، حد درجہ ظالم، بد عمل اور جفا کار ہے۔اوراس کے بعد بداصل بھی ہے“(القلم۰۱۔۳۱) ابوجہل بھی آپ ؐ کو تکلیفیں پہنچاتا تھا ایک دفعہ آپ پر نماز کی حالت میں تھے کہ مٹی ڈالنے آیا مگر اللہ کے حکم سے درمیان میں آگ اُسے آگے نہیں جانے دے رہی تھی۔
اس پر رسول ؐ نے فرمایا قریب آتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو اُچک لیتے۔ ۳ سال تک شعب ابوطا لب میں محصور رکھا گیا،قتل کرنے کی اور ملک بدر کرنے کی سازش کی گئی۔ مخالفت میں کیا کچھ نہ کیا گیا ابو جہل نے حضرت سمیہ ؓ  کو برچھی مار کر شہید کیا گیا،حضرت مصعب بن عمیر ؓ  کا دانہ پانی بند کیا گیا، حضرت عثمان بن عفان  ؓ کو چٹائی میں لپیٹ کردھواں دیا گیا، آل یاسر کو تکلیفیں دی گئیں، حضرت بلال  ؓکو گرم ریت میں لٹایا گیا گھسیٹا گیا ان کے سینے پربھاری پتھر رکھے گئے، حضرت خبیب ؓ  کو گرم کوئلوں پر لٹایا گیا۔ کیا کیا بیان کیا جائے۔ان مظالم کی وجہ سے حبشہ کی طرف دو دفعہ ہجرت کی گئی۔13سال مکہ میں اللہ کے رسول ؐ نے مشرکین اور سرداران قریش کو ہر طرح سے سمجھنے کی کوشش کی۔وہ ایمان کیا لاتے الٹا  نادانوں نے رسول ؐ اللہ کو قتل کا پروگرام ترتیب دیا۔ سب قبیلوں میں سے ایک ایک نوجوان کو اس کام کے لیے چنا گیا اور ان سے کہا گیا کہ یک بارگی سے رسول ؐ اللہ پر حملہ کر کے انہیں قتل کر دیا جائے۔ اس طرح بنو ہاشم سب قبیلوں سے لڑ نہیں سکیں گے اور خون بہا پر راضی ہو جائیں گے۔ اسی موقعے پراللہ نے نبی ؐ  کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی  ؓ کو اپنے بستر پر لیٹنے کا کہہ کر مدینہ ہجرت کر گئے۔ حضرت علی ؓ سے کہا تمام لوگوں کی امانتیں ان کو واپس کر دینا۔ جب قریش مکہ کے سب نوجوان قتل کے لیے پہنچے تو وہاں حضرت علی  ؓ کو پایااس پر پشیمان ہو کر واپس چلے گئے۔
ظالموں نے رسول ؐ اللہ کو مدینہ میں بھی چین سے نہیں چھوڑا اور طرح طرح کی سازشیش کرنے لگے۔ اس کے بعد قریش نے ارادہ کر لیا تھا کہ فوجی طاقت سے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو فنا کر دیا جائے اور ایسا ناگہانی حملہ کیا جائے جو مسلمانوں کو پامال ہی کر دے۔ قریش مکہ نے عبداللہ بن اُبی ّرئیس ا لمنا فقین (یہ وہ شخص ہے جسے رسولؐ ا للہ کے مدینہ آنے سے پہلے مدینہ والے اپنا سردار بنانے والے تھے۔ اس کا تاج بھی تیار ہو گیا تھا) کوخط لکھاتم لوگوں نے ہمارے آدمی(رسولؐ اللہ) کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔ ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو خود اس سے لڑو اور اِسے نکال دو۔ ورنہ ہم تم سے لڑیں گے اور تمہارے مردوں کو قتل اور تمہاری عورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے۔ عبداللہ بن اُبی ّ  آمادہ شر ہوا مگر رسولؐ اللہ نے اس کے شر کی روک تھام کردی۔ پھر سعدبن معاذ ؓ  رئیس مدینہ عمرے کے لیے مکہ گئے۔ وہاں حرم کے دروازے پر ابوجہل نے ان کو ٹوک کر کہا تم نے ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دواور ہم تمہیں اطمینان سے مکہ میں طواف کرنے دیں۔ اگر تم امیہ ّ  بن خلف کے مہمان نہ ہوتے تو یہاں سے نہیں جا سکتے تھے سعد بن معاذؓنے جواب دیا اگر تم نے مجھے اس سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو اس سے شدید تر ہے، یعنی مدینہ پر سے تمہاری تجارتی رہ گزر۔گویا یہ اس بات کا
اعلان تھا کہ اگر تم نے مسلمانوں کومکہ آنے سے روکا تو تمہیں ہم مدینہ کے راستے شامی تجارت سے روک دیں گے۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ شعبان    2 ؁ھ مطابق 623 ؁ ء میں  قریش کا ایک بڑا تجارتی قافلہ ابو سفیان کی سرکردگی میں شام سے مکہ آرہا تھا۔
جب یہ قافلہ مدینہ کے قریب آنے لگا تو سفیان نے مکہ سے اپنے لوگوں کو مدد کے لیے کہا۔جب ایلچی مدد کے لیے مکہ پہنچا تو سردران مکہ نے مشورہ کیا اس مدینہ کی بستی پر حملہ کیا جائے تاکہ روز روز کی پریشانی سے جان چھوٹ جائے۔ اور مسلمانوں کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اس غرض کے لیے مکہ کے سارے سردار اپنے ساتھ 1000 مردان جنگی جن میں 600 سو زرہ پوش تھے جن میں 100 سواروں کا رسالہ بھی بھی شامل تھا۔ پوری شان وشوکت کے ساتھ مسلمانوں کا خاتمہ کرنے نکلے تھے اُدھر رسو لؐ اللہ نے انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور کہا ایک طرف لشکر ہے دوسری طرف تجارتی قافلہ کس طرف جانا چاہتے ہو۔ اللہ کا وعدہ ہے دونوں میں ایک تمہیں مل جائے گا۔ ایک بڑے گروہ نے قافلے کی طرف جانے کا کہا۔ مگر رسولؐ اللہ کی خواہش تھی کے لشکر کے مقابلے میں چلنا چاہیے۔اس پررسولؐ اللہ نے ایک بار پھر سوال دہرایا اس پر مہاجرین میں سے حضرت مقدادبن عمرو ؓ نے اٹھ کر کہا رسولؐ اللہ جدھر آپ کو اللہ کا حکم ہے چلیں گے۔ ہم آپ ؐ کے ساتھ ہیں۔ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ تم اور تمہارا خدا لڑیں ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ اس پر سب کی رائے ایک ہو گئی اورصحابہ ؓ لشکر قریش کی طرف روانہ ہوئے ان کی تعداد83 مہاجرین 61 قبیلہ اوس اور152 قبیلہ خزرج  79متعلقین ہر دو قبائل(حوالہ اصحابِ بدر مولانا محمد سلیمان ؒمنصور پوری)  جن میں صرف دو تین کے پاس گھوڑے باقی آدمیوں کے لیے 70 اونٹ تھے سامان حرب بلکل ناکافی تھا۔17رمضان کو بدر کے مقام پر فریقین کا مقابلہ ہوا۔رسولؐ اللہ نے اللہ سے دعا کی”خدایا یہ ہیں قریش اپنے سامان غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسولؐ کو جھوٹا ثابت کریں خداوندابس آ جائے تیری وہ مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔
اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہو گی“حق وباطل کی پہلی جنگ میں مسلمانوں کے مد مقابل کسی کاباپ،کسی کا بیٹا،کسی کا چچا،کسی کا ماموں،کسی کا بھائی اس کی اپنی تلوار کی زد میں آرہا تھا۔ اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑرہے تھے۔ نبی  ؐ نے امت کی شیرازہ بندی اس طرح کی تھی کہ جنگ بدر کے موقع پر صحابہ ؓ نے اپنے رشتہ داروں سے جنگ کی اور انہیں قتل کیا۔حضرت معصب بن عمیر ؓ نے اپنے بھائی عبید بن عمیرکو قتل کیا۔حضر ت ابو عبیدہ  بن جراح ؓ نے اپنے باپ عبداللہ بن جراح کو قتل کیا۔حضرت عمر ؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا۔حضرت علی ؓ نے شیبہ کو قتل کیا۔حضرت حمزہ ؓ نے ہندہ کے باپ عتبہٍ کو قتل کیا۔حضرت عبید ؓ بن حارث نے ولید بن عُتبہ کو قتل کیا۔ ابو جہل کوحضرت معوذ ؓاور معاذ ؓ دونوں نے قتل کیا۔ حق اور دین کی حفاظت کے لیے اپنے قریبی رشتہ داروں کو قتل کیا۔ یہ حق اور باطل کی جنگ تھی۔اس جنگ میں قریش مکہ کے70  آدمی مارے گئے اور70قید ہوئے قریش کے بڑے بڑے سردار اس جنگ میں مارے گئے۔ اسی پرجیسے ہم نے پہلے کہا ہے کہ مغرب کے ایک بڑے محقق نے لکھا ”بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا،مگر بدر کے بعد وہ مذہبِ ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا“ اللہ کے رسول ؐ اور ان کے بدری صحابہ ؓ  کی قربانیوں کی وجہ سے آج دنیا کے اندر ایک ارب اسی کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔58 سے زائد آزاد مسلم مما لک،تیل اور معدنیات کے ذخاہر، آبی گزر گائیں،ہوائی گزر گائیں اور دولت سے مالا مال۔ مگر دشمن ہر جگہ ہمیں ذلیل و خوار کر رہا ہے۔فلسطین میں غزہ کی جنگ میں اسراعیل اور مغربی ملک فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ ہر روز بمباری سے فلسطینی شہید ہو رہے ہیں۔ تیس ہزار سے زیادہ شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ لاکھ کے قریب زخمی اور گم شدہ ہیں۔ اسی فی صد رہائشی بلڈنگ کو بمباری سے ملیا میٹ کر دیا گیا ہے۔ خوارک لینے والوں پر بھی بمباری کی جارہی ہے۔ مہاجر کیمپوں پر بھی بمباری کر کے مظلوں کو شہید کیا جارہا ہے۔امدادی سامان غزہ میں پہنچنے نہیں دیا جا رہا۔بچے بھوک سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ مسلمان حکمران خوف کی وجہ سے ان کی مدد نہیں کر رہے۔ جب کہ اللہ کا وعدہ ہے تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔دنیا جہاں کی برائیاں مسلمانوں میں در آئی ہیں۔بقول شاعر اسلام علامہ اقبالؒ:۔
”وضع میں تم ہو نصارا، تمدن میں ہنود
  تم مسلمان ہو تمہیں دیکھ کے شرمائیں یہود“
امت ِمسلمہ کو پھر سے اپنے کھوئے ہوئے مقام حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر اس کے بغیر نہیں ہو سکتا جب تک ہم مومن نہیں بن جاتے،ہم بہتر مسلمان بننے کی کوشش نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سیدھے راستے پر چلائے۔ آمین۔

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
86881