
قوم کے حقیقی ہیرو – تحریر: محمد شریف شکیب
قوم کے حقیقی ہیرو – تحریر: محمد شریف شکیب
رب کائنات نے اپنی تمام مخلوقات میں سے صرف انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا ہے۔اور اسے عقل سلیم کے ساتھ گفتارکی صلاحیت سے نوازا ہے۔مخلوقات خداوندی میں سب سے معتبر اور اشرف قرار پانے والا حضرت انسان جب نیکی اور فلاح انسانیت کی راہ پر چلنے لگا تو اسے اللہ تعالیٰ نے معراج تک پہنچنے اور اپنے ساتھ ہمکلام ہونے کا شرف بخشا اور جب انسان اپنے خالق کے بتائے ہوئے راستے کو بھلا کر من مانی کرتا ہے تو اس کا درجہ حیوانات سے بھی گر جاتا ہے۔قرآن پاک کی آیت کریمہ کا مفہوم ہے کہ “ہم نے انسان کو بہترین شکل میں تخلیق کیا پھر اسے نیچی سے نیچی سطح پر گرا دیا”انسان کو عقل سلیم سے نوازنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ عقل کو استعمال کرکے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اس کی مخلوق کی فلاح کے لئے بروئے کار لائے۔
انسانیت کی خدمت اور اس کا احترام کرے۔سورہ بقرہ کی آیت کریمہ کو مولانا الطاف حسین حالی اپنی شہرہ آفاق کتاب مدوجذر اسلام میں ان پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ”ہدایت والی کتاب”قرآن مجید” کا پہلا سبق یہ ہے کہ انسان سمیت تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کو وہی انسان پسند ہے جو اللہ کی مخلوق سے محبت اور احترام کا تختہ قائم کرے۔دنیا میں انسان کی سب سے افضل عبادت، دین اور ایمان کی واضح علامت یہی ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے کام آئے”بلاشبہ جن لوگوں نے خود کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کیا۔
ان کا نام رہتی دنیا تک زندہ رہتا ہے اور ان کے نیک کاموں کا ثواب قیامت تک ان کو ملتا رہتا ہے۔یہی لوگ فخر انسانیت کہلاتے ہیں انہی شخصیات کے طفیل انسانی معاشرے کی بنیادیں استوار ہیں۔نفسا نفسی، ذاتی مفادات کے حصول، رشوت، اقربا پروری اور بدعنوانی کے اس دور میں بھی ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ موجود ہیں جن کا نصب العین انسانیت کی خدمت، لوگوں کا دکھ درد کم کرنا اور ان کی مدد کرنا ہے۔دکھی انسانیت کے خدمت کے علمبردار یہ لوگ ذاتی تشہیر کو پسند نہیں کرتے۔وہ اس حدیث مبارکہ پر یقین اور ایمان رکھتے ہیں کہ اصل صدقہ یہ ہے کہ ایک ہاتھ سے دیدو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔
ذمہ دار معاشرے کے ذرائع ابلاغ کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ انسانیت کی بھلائی کے ان کاموں کو اجاگر کرے تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی انسانیت کی بھلائی کے لئے کام کرنے کی تحریک ملے۔ہمارے صوبے میں ایسی مخیر اور انسان دوست شخصیات موجود ہیں جو دن رات نادار، یتیم، بے سہارا اور معذور لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔یہی لوگ ہمارے اصل ہیرو ہیں۔ایسے ہی انسان دوست اور مخیر شخصیات میں چترال سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی انور امان اور نسرین امان بھی شامل ہیں۔جو صوبائی حکومت کے زیر انتظام بے سہارا بچوں کے ادارے زمنگ کور کی خاموشی سے کفالت کر رہے ہیں۔
اس کے علاؤہ سپارک آف ہوپ کے نام سے جسمانی معذوری کا شکار بچوں کی تعلیم و تربیت کا ادارہ بھی چلا رہے ہیں جہاں ان بے سہارا بچوں کو معیاری تعلیم کے ساتھ مختلف قسم کے ہنر بھی سکھائے جا رہے ہیں تاکہ انہیں بھیک مانگنے کے بجائے اپنے پاؤں پر خود کھڑاہونے میں مدد دی جا سکے۔نسرین امان نے معذور اور نادار بچوں کی ماؤں اور بہنوں کو سلائی، کڑھائی اور فیشن ڈیزائن کا ہنر سکھانے کے لئے پشاور میں لاریشا تربیتی مرکز بھی قائم کردیا ہے۔ملکی اور غیر ملکی مارکیٹ سے اعلی اقسام کے کپڑے خرید کر انہیں کاریگر خواتین سے سوائے جاتے ہیں۔
یہ ملبوسات بیرون ملک منڈیوں میں لاریشا پشاور کی مصنوعات کے طور پر متعارف کرائی جاتی ہیں اور ان کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی تربیتی مرکز کی ہنرمند خواتین کی تنخواہوں اور ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات پر صرف کی جائے گی۔اب تک درجنوں نادار خواتین اس مرکز سے ہنر سیکھ چکی ہیں اور جسمانی معذوری کا شکار سینکڑوں بچوں کو ہنر اور معیاری تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا گیا ہے۔نسرین امان نے دستکاری کے اس تربیتی مرکز کی شاخیں صوبے کے دیگر شہروں اور اضلاع میں بھی کھولنے کا اعلان کیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نادار خواتین کو معاشی لحاظ سے خود مختار بنایا جاسکے۔
انور امان اور نسرین امان کو اس فلاحی منصوبے سے آمدنی یا شہرت حاصل کرنے کی طمع نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اس کی مخلوق کی بے لوث خدمت کرنا چاہتے ہیں انہیں حکومت یا اداروں سے کسی صلے یا تعریف کا لالچ بھی نہیں۔اس صوبے میں ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہوں گے جو رضائے الٰہی کے لئے مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف ہیں۔ایسی ہی ہستیوں کی بدولت معاشرے کا نظام چل رہا ہے۔اللہ تعالیٰ درد دل اور خدمت خلق کے جذبے سے سر شار ان شخصیات کی روزی کمائی میں برکت عطا فرمائے اور سب صاحب ثروت لوگوں کو ان کی تقلید کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔