
عنکبوت – تحریر:میر سیما آ مان
عنکبوت – تحریر:میر سیما آ مان
قرآن کریم میں ایک سورۃ ہے عنکبوت جسکے معنی مکڑی کے ہیں ۔ اس سورۃ میں یہی کہا گیا ہے کہ جو اللہ کے سوا اوروں کو اپنا کارساز بنائے گا انکی مثال مکڑی کی سی ہے جو گھر بناتی ہے اور بے شک گھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کی ہے اگر یہ سمجھیں ۔۔اس سورۃ میں انسانوں کے لیے بڑا پیغام ہے اگر کوئی سمجھنا چاہیں ۔۔۔ کہتے ہیں مکڑی کا ریشم اسٹیل سے بھی ذیادہ سخت ہوتا ہے اسکے باوجود سب سے کمزور گھر بلکہ بد ترین گھر مکڑی کا ہے کیوں۔۔۔ کیونکہ مکڑی اسمیں اکیلی رہتی ہے ۔۔یہ گھر بننے کے بعد اپنے ہی ساتھی کو قتل کرتی ہے اور بدلے میں اسکے بچے اسے کھا جاتے ہیں ۔ اسکا گھر دوسری مخلوقات کے لیے پھندا بن جاتا ہے ۔۔ ذرا غور کریں آ ج کے انسان اور مکڑیوں میں کوئی فرق نظر آ تا ہے۔۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ آدمی جو کتنے ہی شوق سے گھر بناتا ہے ۔۔اور گھر کس لیے بنایا جاتا ہے اپنے سکون کے لیے آرام کے لیے اپنی اور انیوالی نسل کو عزت اور سکوں سے رہنے کے لیے ایک محفوظ مقام فراہم کرنے کے لیے ۔۔۔مگر کتنی عجیب بات ہے ساری زندگی پیٹ پر پتھر باندھ کر پائی پائی جور کر بنایا گیا گھر نہ ہمیں سکون فراہم کرتا ہے نہ ہماری عزت کا محافظ رہا ہے۔۔ ہم اپنے ہی گھروں کے اندر ذلیل ہورہے ہیں اپنے ہی ایک دوسرے کے ہاتھوں زندگی سے بے زار ہورہے ہیں کیوں ۔۔کیونکہ ہماری مثال اس بد ترین مکڑی کی طرح ہوگئی ہے جو اس گھر میں اکیلے رہنے کو تر جیح دیتی ہے۔
پہلی مثال ایک والد اور اسکی اولاد کی لے لیں۔جونہی اولاد بڑی ہو جاتی ہے والد کا بوڑھا وجود اسکو کھٹکتا ہے ۔اسے لگتا ہے کہ کیسے جلدی سے اسکی جان سے خلاصی ہو جائے اور گھر کی ملکیت اسکے ہاتھ لگ جائے۔بلکل جس طرح گھر بننے کے بعد مکڑی کی اولاد اسے کھا جاتی ہے ۔ ہمیں باپ کا وجود اسکا بڑھاپا اسکی ضروریات کھٹکتی ہیں۔ دوسری طرف ماں باپ کو ایک طرف رکھ کے صرف اولاد کو ہی لے لیں جنکی آپس میں ہی نہیں بنتی ۔جو صرف مکان سے محبت کرتے ہیں مکان پر حق جتاتے ہیں اور صرف اسی حق کو جتانے کے لیے ایک ساتھ رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ مرتے دم تک زمین کا یہ ٹکڑا انھوں نے خالی نہیں کرنا نہ کسی کے لیے چھوڑنا ہے اور اس ٹکڑے پہ رہنا بھی اس انداز سے ہے کہ یہ جہنم کی کوئی گھاٹی بن جائے اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ۔ان کا سب سے بڑا مسئلہ میں ہے کیونکہ یہ اپنی میں سے نہیں نکل پاتے۔انکو ہر کام گھر کے ہر فیصلے رکھ رکھاؤ ا سے ے تک میں کا بخار نہیں اترتا اسلیے انکی زندگیاں شدید دباؤ میں ہیں کیونکہ بچپن میں سنا تھا کہ اتفاق میں برکت ہے تو انکی زندگیوں میں نہ اتفاقی کی بے برکتیاں ہیں ۔جس نہ اتفاقی کی انھوں نے ساری عمر ٹھان رکھی ہے ۔
انہی افراد کی دوسری قسم سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں ۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر شخص موبائیل میں دور دراز تمام لوگوں سے ہر وقت کنکٹیٹ ہے اور ان رابطوں پر فخر بھی کرتا ہے لیکن اپنے ہی گھر میں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کا روادار نہیں ۔ جو فیسبک سکرولنگ کو اپنی عبادت بنایا ہوا ہے اور اپنی اس فینٹسی ورلڈ میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتا اور اپنے مکان میں اکیلے رہنے کے بہانے خود سے جڑے رشتوں کے خاتمے پر اسے رتی بھر افسوس نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اسکی زندگی کا مقصد اب جھوٹے تعلاقات منافقت بھرے وڈیو کالز اسٹیٹس اپ ڈیٹس جنکے اندر حقیقت میں کوئی لچک نہیں ہے جو سب کا سب اپنا اصل چھپانے کے لیے ہیں اسمیں مصروف ہیں ۔
مکڑی کی سب سے بد ترین مثال سوشل میڈیا کے یہی چیلے ہیں جنکا اخلاق بھی اپنے ہی جیسے کارندوں کے لیے اچھا ہو جاتا ہے اور انکے گھر کے دروازے بھی اپنے ہی جیسوں کے لیے کھلتے ہیں ۔افسوس کا مقام صرف اتنا ہے کہ جو مکڑی کا انجام ہے وہی انکا ہے یہ ٹھکانہ انکے اپنے ہی گلے کا پھندہ بن جاتا ہے لیکن یہ اپنی تباہی سے بے خبر جھوٹی شان وشوکت کی چسکیاں لینے میں مصروف ہیں۔ انکے لیے صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ بے شک گھروں میں سب سے بد ترین گھر مکڑی کا ہے جسکے ریشم اسٹیل کی طرح سخت ہیں لیکن وہ گھروں میں سب سے کمزور گھر ہے ۔
فکر کی بات یہ ہے کہ گھر تو پرندے بھی بناتے ہیں اور سینکڑوں حیوانات کسی نہ کسی جگہ کو گھر کی صورت دے کر اسمیں رہتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ قرآن کریم میں صرف مکڑی کے گھر کا تذکرہ آ یا صرف اسکے بدترین خصلت کی بناء پر ۔۔ کیونکہ اللہ جانتا ہے ہے کہ میرے بندے پر جب طاقت اور اسائشات کی نوازشات ہونگی تو وہ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے سے گریز نہیں کریں گے وہ طاقت کا غلط استعمال بھی کریں گے اور حد سے بھی گزر جائیں گے بے شک انسان خطا کا پتلاہے اور بری خصلت اپنانے میں بہت جلد باز ہے ۔