صدا بصحرا ……….. پھول جیسا انسان ۔حاجی یار خان…………. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی چترال ریجن 32سال کا ہوگیا ۔ یونیورسٹی کے 26پروگراموں میں 32سالوں کے اندر ڈگریاں اور سرٹیفیکیٹ لینے والوں کی تعداد 4لاکھ آبادی والی اسی ایک ریجن میں ڈیڑھ لاکھ سے اوپر ہے ۔میٹرک سے لیکر ایم فل اور پی ایچ ڈی تک اتنی بڑی تعداد کو دفتر سے باہر بانی ڈائریکٹر مقبول الہٰی ، ڈپٹی ڈائریکٹر رفیع اللہ اور دوسرے سٹاف نے سہولتیں دیں تاہم دفتر کے اندر سب کی سہولت کاری کا فریضہ انجام دینے والا حاجی یار خان تھا ۔32سال کے بعد 60سال کی عمر کو پہنچ کر انہوں نے ریٹائرڈ منٹ لے لی تو معلوم ہوا کہ زندگی کتنی مختصر ہے اور زندگی کی مہلت کتنی محدود ہے ؟ حاجی یار خان پھول جیسا انسان ہے ۔ مولوی عبد الحق کے ممدوح نام دیومالی کی طر ح اپنے کام سے عشق کی حد تک محبت کرنے والا شخص ہے ۔ سب کیلئے دل کشادہ رکھنے والا ، بے ضرر انسان جس نے کبھی دلجوئی میں کمی نہیں کی، دل آزاری کا ایک جملہ بھی نہیں کہا۔ بہت بڑی بات یہ ہے کہ اُنہوں نے دفتر، معاشرہ ،حکومت وغیرہ کے بارے میں تنگی ، ترشی اور تکلیف میں بھی شکایت نہیں کی۔ وہ پھول جیسا انسان ہے جس طرح پھول کا نٹوں کے درمیان ہنسی خوشی وقت گذارتا ہے ۔خوشبو اور رنگ بکھیرتاہے ۔ اسی طرح انہوں نے کانٹوں کے ساتھ پنجہ آزمائی یا کانٹوں کی شکایت کرنے پر چُپ چاپ رہ کر رنگ اور خوشبو بکھیرنے کو ترجیح دی۔ ان کے خاکے پر ’’ پھول جیسا انسان۔ حاجی یار خان ‘‘ کا عنوان ہی دُرست لگتا ہے ۔ ریٹائرمنٹ کے موقع پر ریجنل آفس چترال میں پُروقار تقریب ہوئی۔ تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے ریجنل ڈپٹی ڈائریکٹر رفیع اللہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور روتے ہوئے اُن کی ہچکی بندھ گئی
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دوہے شامِ فراق
میں یہ سمجھوں گا شمعیں دو فروزاں ہوگئیں
اس موقع پر سید شمس النظر شاہ فاطمی اور استاد ضیاء الدین نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو چترال میں مقبول بنانے کیلئے بانی کوارڈ نیٹر اور ڈائریکٹر مقبول الٰہی کے ساتھ حاجی یار خان کی انتھک محنت کو سراہا۔ 1987ء میں جب چترال میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا دفتر کھلا
ٹیو ٹوریل سنٹر اور امتحانی مرکز قائم ہوا ۔ تو کا م کی ابتدا نا مساعد حالات میں ہوئی۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر عبد الواسع مرحوم نے ایک میز اور ایک کمرہ دیا۔ کمرے میں دو کرسیوں کی جگہ تھی۔ مقبول الٰہی مہینے کے22دن دورے پر رہتے تھے۔ وہ پراسپکٹس ، داخلہ فارم اور بروشر بیگ میں ڈال کر کم تر پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے زیادہ تر پیدل ضلع کے دور دراز علاقوں کا دورہ کرتے اور فاصلاتی تعلیم کا طریقہ کار لوگوں کو سمجھا کر گھر بیٹھے ڈگری لینے کی ترغیب دیتے ۔ موقع پر فارم بھرتے۔ فیس جمع کرتے ۔ خود بینک لے جاتے اور رسیدیں واپس لوگوں کو پہنچاتے ۔ بعض دوستوں نے علامہ اقبال کی جگہ مقبول اوپن یونیورسٹی کہنا شروع کیا۔ تو مقبول صاحب ناراض ہوگئے۔اس دور میں دفتر کا سارا کام حاجی یار خان اکیلے سنھبالتے تھے
میں اکیلے ہی چلا تھا جانبِ منزل
لوگ آتے رہے اور کارواں بنتا گیا
جب کارواں بن گیا تو اوپن یونیورسٹی کی خانہ بدوشی کا دور آیا۔ کرایے کے مکانات کی تلاش ، کبھی ایک محلے میں کبھی دوسرے محلے میں۔ اوپن یونیورسٹی کادفتر جہاں بھی گیا حاجی یار خان حاضری کے وقت سے 10منٹ پہلے پا پیادہ وہاں پہنچ جاتے اور چھٹی کے بعد بھی آدھ گھنٹہ زیادہ لگا کر دفتر سے اُٹھتے۔ اکثر چھٹی کے دنوں میں بھی دفترآتے ۔ ان کا شعبہ فنانس تھا مگر وہ ایڈمنسٹریشن اور اسٹبلشمنٹ سمیت تمام شعبوں کا کام ذوق و شوق کے ساتھ کرتے اور کسی کوشکایت کا موقع نہ دیتے۔ یہ تربیت انہیں گھر سے ملی تھی۔ ان کا خاندان کار گذارلوگوں کا کنبہ ہے۔ سیبوں کیلئے مشہور ہے گاؤں بریپ میں رستمے قبیلے کا یہ خاندان خوش خلقی ،انکساری اور محنت کیلئے مشہور ہے۔ ان کے چچا گل رکین مرحوم نے 1948ء میں سکردو کے کھرپچو قلعے پر پاکستانی پرچم لہرایا تھا۔ ان کے چچا زاد بھائیوں میں شیر علی مرحوم ہر دل عزیزشخصیت کے مالک تھے۔ لیاقت علی ، نورانی خان ، محمد علی ، امتیاز علی، محمد سیار خان اپنے اپنے شعبوں کے مقبول نام ہیں۔حاجی یار خان کی ریٹائرمنٹ پر شاعر کے خیالات مستعار لیکر یوں کہاجاسکتا ہے
مہتاب وہی گل وہی برسات وہی ہے
اک تو ہی نہیں ورنہ ہر بات وہی ہے
سانسوں میں بسی رہتی ہے اک یاد کی خوشبو
محسوس یہ ہوتا ہے میرے ساتھ وہی ہے