صدا بصحرا ………. فلسطینی مجاہدہ -لیلیٰ خالد………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ
فسطینی مجاہدہ اور غازیہ لیلیٰ خالد کی عمر 74سال ہے وہ اپنے شوہر ڈاکٹر فیاض راشد ہلال اور دو بیٹوں بدر اور بشار کے ہمراہ اردن کے دارالحکومت عمان میں رہتی ہے ۔ بڑھاپے میں بھی امریکہ اور اسرائیل کے خلاف آئینی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے ۔ اب بھی اسرائیل کی بربادی اور فلسطینیوں کو ان کے وطن کی واپسی کے لئے قانون کے دائرے میں اپنا من، دھن اور تن قربان کرنے کے لئے پر عزم ہے ۔ مگر جب وہ مشہور ہوئی ، مخصوص نقاب اور اے کے 47-رائفل کے ساتھ ان کی تصویر دنیا بھر کے اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں کی زینت بنی اُس وقت اُس کی عمر 25سال تھی۔ وہ پہلی مسلمان خاتون ہے جس نے فلسطینی کاز کیلئے جہاز اغوا کیا۔25 سال کی عمر میں اُس نے فلسطین کی آزادی کے لئے پہلا جہاز اغوا کیا اور اسلامی دنیا کی ہیروئن بن گئی۔ ایک سال کے اندر اُس نے دوسرا جہاز اغوا کیا ۔ اور 26دن قید کاٹنے کے بعد تیسرا جہاز اُس کے ساتھیوں نے اغوا کیا ۔ مسافروں کی رہائی کے لئے لیلیٰ خالد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ ایک ماہ بھی قید میں نہیں ہوا تھا کہ اس کو رہائی مل گئی۔ آج امریکہ کے خلاف ایسا مجاہد پیدا ہوتا تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی قید میں ہر گز نہ ہوتی۔ آج جن لوگوں کی عمریں 50سال سے اوپر ہیں ان کو نقاب پوش گوریلا لڑکی لیلیٰ خالد کی تصویر اچھی طر ح یاد ہوگی۔ اُس کے دائیں ہاتھ میں رائفل اور بائیں ہاتھ میں بم ہوتا تھا ۔ جہاز کے اندر کسی کو ہمت نہیں ہوتی تھی کہ لیلیٰ خالد کو قابو کرے یا اُن کی زنانہ وجاہت میں پوشیدہ مردانگی کا مقابلہ کرسکے ۔ لیلیٰ خالد کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور عجیب بھی ۔ دلچسپ اس لئے کہ وہ دنیا کی پہلی خاتون ہائی جیکر کے طور پر سامنے آئی اور چھا گئی۔ عجیب اس لئے کہ وہ معروف معنوں میں کسی مسلمان عالم، مرشد پیر یا استاد سے متاثر نہیں تھی بلکہ اس کا لیڈر جارج صباش ایک لبرل اور سیکولر عیسائی فلسطینی تھا۔ امریکن یونیورسٹی بیروت میں تعلیم کے دوران جارج حباش کی تنظیم ’’ پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف پیلسٹائن ( PFLP) سے متاثر ہوئی ۔ جارج حباش نے یہود ی بستیوں کے خلاف 1940ء میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد کیلئے وقف کردی۔ ابو نیدال اور یاسر عرفات بھی جارج حباش سے متاثر تھے اگرچہ یا سر عرفات نے الفتح کو پاپولر فرنٹ سے الگ کرلیا تاہم تنظیم آزادی فلسطین میں وہ یکجا تھے جارح حباش عمر میں ان سے بڑے تھے اور پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے ۔ جبکہ یاسر عرفات انجنیئر تھے ۔ لیلیٰ خالد نے تاریخ ، فلسفہ اور عمرانیات کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اُن کی کہانی خلیل جبراں کی کہانی سے ملتی جلتی ہے ۔دونوں نے بچپن میں باپ کی جدائی کا صدمہ برداشت کیا۔ لیلیٰ خالد فلسطین کے قدیم شہر الحیفہ میں 1944ء میں پیدا ہوئی ۔ 4سال کی عمر میں 13اپریل 1948ء کو ان کی ماں نے فلسطینیوں کے ساتھ ہجرت کی اور لبنان کے مہاجر کیمپ میں پہنچی جب کہ باپ فلسطین میں رہ گیا۔ اپنی خود نوشت سوانح عمری ’’ My People Will Live‘‘ میں انہوں نے اپنی کہانی لکھی ہے ۔ یہ دل کو دہلا دینے والی کہانی ہے ۔ یہ کتاب 1973ء میں شائع ہوئی جب کہ لیلیٰ خالد کی زندگی پر فلم 2005ء میں بنی۔ فلم کا نام لیلیٰ خالد ہائی جیکر ہے اور ا سے ایمسٹر ڈم کے فلمی میلے میں بڑی پذیرائی ملی۔ فلم کی ڈائریکٹر لینامقبول بھی فلسطینی ہیں۔ لیلیٰ خالد اور ان کے ساتھیوں نے 1968ء اور 1971ء کے درمیانی عرصے میں 4جہازاغوا کئے۔ لیلیٰ خالد نے پہلا جہاز 29اگست 1969ء کو اغوا کیا یہ بوئنگ 707جہاز تھا۔ TWA-840فلائیٹ اٹلی کے شہر روم سے تل ابیب جا رہی تھی ۔ اطلاع یہ تھی کہ اسرائیل کے وزیر اعظم اضحاک رابن بھی اس فلائیٹ کے مسافروں میں شامل ہیں جہاز ایشیاء کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی ایک نقاب پوش خاتون نے جہاز کا کنڑول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس نے پائیلٹ کو حکم دیا کہ فلسطینی شہر حیفہ کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے جہاز کا رخ دمشق کی طرف موڑ دو۔ دمشق جانے سے پہلے میں اپنی جائے پیدائش ، وطن مالوف حیفہ کو دیکھنا چاہتی ہوں ۔ خاتون اور اُس کے ساتھی بموں سے مسلح تھے ۔ پائیلٹ نے حکم کی تعمیل کی ۔ جہاز دمشق میں اتار لیا گیا۔ مسافروں کو یرغمال بناکر فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کی گیا۔ پوری دنیا کی توجہ فلسطینیوں پر صیہونی مظالم کی طرف مبذول ہوئی ۔ مذاکرات کے بعد اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور ہائی جیکروں کی بحفاظت واپسی کی شرائط پر تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا۔ دنیا بھر کے ٹیلی وژن چینلوں اور اخبارات نے لیلیٰ خالد کے انٹر ویو نشر اور شائع کئے۔ وہ عالم اسلام کی آنکھ کا تارا بن گئی ۔ اُن کی تصویر وں کواتنی شہرت ملی جو اس سے پہلے کسی مسلمان خاتون کو نہیں ملی تھی۔ دوسرا جہاز انہوں نے ایک سال بعد 6 ستمبر 1970ء کو اغوا کیا۔ یہ بھی بوئنگ جہاز تھا جو ایمسٹر ڈم سے نیویارک جارہاتھا ۔لیلیٰ خالد نے یورپ کی حدود میں ہی جہاز کو اغوا کیا اور پائیلٹ کو بغداد جانے کا حکم دیا ، یہاں اُن کے ایک ساتھی پیٹرک ارگیلو سے غلطی ہوئی اُن کے ہاتھوں ایک مسافر ہلاک ہوا۔ جوابی کاروائی میں پیٹرک مارا گیا مگر لیلیٰ خالد نے ہمت نہیں ہاری ۔ جہاز کا رخ لندن کی طرف موڑ دیا گیا۔ ہیتھرو ایئر پورٹ پر لیلیٰ خالد کو گرفتار کیا گیا ۔ اس خبر نے دنیائے اسلام میں ہلچل مچائی۔ فلسطینیوں کو شدید صدمہ ہوا ۔ ایک مہینہ بھی نہیں گذرا تھا کہ فلسطینی جانبازوں نے ایک اور طیارہ اغوا کیا۔ مسافروں کو یرغمال بنایا۔ مذاکرات کی میز پر لیلیٰ خالد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ یوں لیلیٰ خالد کو قید سے رہائی ملی۔ اپنی خودنوشت سوانح عمری میں لیلیٰ خالد نے تشدد کے راستے کو کسی بھی تنظیم کیلئے زہر قاتل قرار دیا ہے۔ انہوں نے نازی جرمنی کی مثال دی ہے ۔ ہٹلر نے یہودیوں پر تشدد کیا مگر اس کے نتیجے میں صیہونیت مزید مضبوط ہوئی ۔ فلسطینیوں پرہونے والے مظالم ہٹلرکے ظلم کا ردّعمل ہیں۔ اگرچہ لیلیٰ خالد کو حسن نصراللہ اور شیخ یاسین شہید کی طرح نظریاتی جہادی کا درجہ نہیں دیاجاسکتا۔ پھر بھی وہ سامراجی طاقتوں کے خلاف فلسطینیوں کی لبرل اور سیکولر جدوجہد کا اہم کردار رہی ہے۔ تاریخ میں لیلیٰ خالد کے عزم، جذبے اور ولوے کیساتھ اُس کی ہمت اور جرات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا ۔آج بھی یورپ کے اقوام پر اُس کے نام کا رعب حاوی ہے۔ 2017ء میں 73سالہ لیلیٰ خالد کو ایمسٹر ڈم کے ہوائی اڈے میں داخل ہونے سے روک دیا گیاکیونکہ صیہونی دنیا آج بھی لیلیٰ خالد کے نام سے ڈرتی ہے۔