شندور میلے میں وی آئی پی کلچر: ایک ناجائز اور نا قابل قبول عمل! ۔تحریر: کلیم کاوش۔
چترال، جو کہ اپنی نمایاں روایت، ثقافت، پر امن ماحول، ہم آہنگی اور مہمان نوازی کے لیے عالمی سطح پر جانا جاتا ہے، سالانہ شندور میلہ 2024 کی میزبانی کرے گا جو ہر سال چترال اور گلگت کے درمیان دنیا کے بلند ترین پولو گراؤنڈ میں کھیلا جاتا ہے۔ اس سال یہ تہوار 28 جون کو شروع ہونے اور 30 تاریخ کو اختتام پذیر ہونے کی امید ہے۔
چترال اور گلگت کے باشندے ہر سال بڑی تعداد میں اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے اور اپنے دنوں کو گننے کے قابل بنانے کے لئے آتے ہیں۔ جب ہر جگہ سماجی بیگانگی، معاشرتی مایوسی اور وقت کی کمی پروان چڑھ رہے ہو، ایسے میں شندور جیسے فیسٹیول کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ تہوار ایک پابند قوت کے طور پر کام کرتا ہے جس نے چترال اور جی بی کے لوگوں کو دہائیوں سے باندھے رکھا ہے اور ہمارے درمیان برادرانہ تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔
تاہم، اس کے ساتھ ایسا مسئلہ بھی ہے جو ہمیں جذباتی طور پر مایوس کرتا ہے، ہمارے اندر احساس کمتری کو پروان چڑھاتا ہے اور ہمیں ان بنیادی حقوق کی واضح تصویر دکھاتا ہے جن سے ہمیں کئی دہائیوں سے محروم رکھا گیا ہے۔
شروع کرتے ہے مقامی تماشائیوں سے، جو اپنی سماجی، خاندانی اور علمی وابستگیوں پہ سمجھوتہ, اور اپنے مصروفیات سے وقت نکال کر میچ دیکھنے آتے ہیں، ان کے ساتھ وہاں پرایون اور تھرڈ کلاس سٹیزین جیسا سلوک کیا جاتا ہے. اسی گراونڈ کے دوسرے کونے پر ایک الگ قسم کے مخلوق ہوتے ہیں جن کو فرانگیوں کی زبان میں وی آئی پیز (VIPs) بولتے ہیں، ان مخصوس شخصیات، ان کے اہل خانہ، بچوں اور حتیٰ کہ رشتہ داروں کے لیے بھی پر سکون ماحول تعمیر کی گئی ہے، جو کہ سکون سے سائے تلے، فلٹر اور ٹھنڈے پانی ہاتھ میں لئے، آرام دہ نشستوں پر بیٹھ کر فیسٹیول سے لطف اندوز ہوتے ہیں جن کی گراونڈ کے اس کونے پہ بیٹھے مقامی مخلوق صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔
1.
ہمارے بزرگوں کو جون کی چلچلاتی دھوپ کے نیچے, دھول آلود زمین میں بیٹھایا جاتا ہے
2.
ہماری مائیں اور بہنیں، جن کو اپنے خاندانی کاموں سے شاذ و نادر ہی فرصت ملتی ہے، ان کو گراونڈ سے دور تندور سے بھی گرم پتھروں پر بیٹھنے پر مجبور ہوتے ہیں، جہاں سے رویت حلال کمیٹی کی دوربین سے بھی پولو گراؤنڈ کو ٹھیک سے دیکھا نہیں جا سکتا۔
3.
کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس طرح کے میگا ایونٹ میں واش رومز کا انتظام نا ہو، خاص کر خواتین کے لئے۔
4.
پچھلے سال فیسٹول دیکھنے شندور جانا ہوا، دوکان سے کچھ بسکٹ خرید کر کھایا، اور پورا دن کاغذ ہاتھ میں لئے ڈاسٹ بین ڈھونڈنے میں گزر گیا۔ افسوس یہ کہ ایک بھی نہ ملا ، ہم نرالے قوم ہے، اور ہمارے کام بھی نرالے ہے!
6.
آخری بات مقامی کمیونٹی کو پولو گراؤنڈ کے قریب اپنا خیمہ لگانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ آس پاس کی جگہیں مقدس گایوں کے لیے مخصوص ہیں — نام نہاد VIPs کے لئے۔ اور یہ وی آئی پیز زیادہ تر ہمارے محافظ گروہ کے لوگ ہیں جن کی تعداد پچھلے سال تماشائیوں سے بھی زیادہ تھا۔
ہمارا مطالبہ سادہ ہے:
چترال کا دورہ کرنے والے اپنے مہمانوں کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں، ان کو تمام سہولیات فراہم کریں، وہ انتہائی احترام کے ساتھ پیش آنے کے مستحق ہیں۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ، مقامی کمیونٹی کو ایک ادنیٰ مخلوق سمجھنا بھی بند کریں۔ کم از کم، بیٹھنے کے لیے مناسب نشستیں ہونی چاہئیں، اگر کرسیاں نہیں تو کم از کم پولو گراؤنڈ چترال جیسی سیمنٹ کی سیڑیان بنائی جائے، جہاں ہم آرام سے بیٹھ کر میچ دیکھ سکے۔ اس کے علاوہ، مقامی خواتین کمیونٹی کے لیے آرام دہ اور قابل رسائی واش روم کو یقینی بنائیں تاکہ وہ بھی تہوار کو پرسکون ہو کر دیکھ سکے۔ گراونڈ کے ہر کونے میں ڈسٹ بین انسٹال کرے تاکہ مقامی لوگوں کی مال مویشیوں کی بھی تھوڑی خیر ہو، اور پیسے اگر تھوڑے بچ جائے تو آپس میں بانڈھنے کے بجائے، گرونڈ کے قریب ایک پانی کی پائیپ لگا لے تاکہ جب گلہ سوکھ جائے تو ایک بوند پانی کے لئے ایک گنٹھے کا سفر نہ طے کرنا پڑے۔
یہ سب ہمارا بنیادی اور قانونی حقوق ہے جن کو مانگنے کی نوبت ہی نہیں آنی چائیے تھی، ان سب پر غور اور عمل کیا جانا چاہیے۔
شکریہ!