
شمیم آپا ۔ ایک خودرو جھاڑی – تحریر: گل عدن
شمیم آپا ۔ ایک خودرو جھاڑی – تحریر: گل عدن
ٹی وی ڈرامے ہمیشہ سے ہی عوام کی دلچسپی کا ذریعہ رہی ہیں۔پہلے پہل پاکستان کی بیشتر خواتین انڈین ڈراموں کی دیوانی ہوا کرتی تھیں۔مگر اب پاکستانی ڈراموں کا پڑوسی ملک میں راج ہے۔شاید اسکی وجہ یہ بھی کہ اب ڈرامے زیادہ تر حقیقی کہانیوں پر مبنی یا حقیقت کے قریب ہونے کے سبب سبق آموز بھی ہیں۔آجکل ایک پرائیویٹ چینل پر ایسا ہی ایک سیریز دکھایا جارہا ہے شمیم آپا کے نام سے۔اس ڈرامے پر قلم اٹھانے کی ضرورت یوں پیش آئی چونکہ میری تحریریں زیادہ تر گھر اور گھریلو زندگی کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ میرے مطابق ہماری زندگیوں کا آغاز اس گھر سے ہی ہوتا ہے جہاں ہم جنم لیتے ہیں۔اور ہماری کامیابی اور ناکامیوں کا دارومدار بھی اسی گھر پر ہوتا ہے جہاں ہم پرورش پاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہ گھریلو موضوعات ہی میری کمزوری ہیں ہمیشہ سے۔لہذا یہ ڈرامہ بھی اس لحاظ سے ہمارے معاشرے کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔اس ڈرامے کے مرکزی کردار دو بھائیوں کے دو گھرانے ہیں۔بڑے بھائی جس نے اپنی بچوں کی تعلیم و تربیت پہ زیادہ توجہ نہیں دی۔اس گھر کی بڑی بیٹی جو شاید غلطی سے دو کتابیں زیادہ پڑھ کے نرس بن گئی ہے مگر خود کو ڈاکٹر سے کم نہیں سمجھتی۔بے وقوف اتنی ہے کہ اپنی چالاکی کو عقلمندی سمجھ کر اس پر ناز بھی کرتی ہے۔گھر میں اسے سربراہ کی حیثیت حاصل ہے۔حتی کے باپ بھی شمیم آپا کی اجازت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔پورے گھر میں شمیم آپا کا راج ہے۔اور گھر میں موجود چھوٹے بہن بھائی کسی کی مجال نہیں کہ شمیم آپا کی حکم عدولی کرے۔
گھر کا ہر فرد چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہر وقت کٹہرے میں کھڑا اپنی صفائی پیش کرتا رہتا ہے۔یہ گھر کم شمیم آپا کی عدالت زیادہ لگتا ہے جہاں ہر کوئی مجرموں کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔اس گھٹن زدہ ماحول کی سب سے بھیانک صورت حال یہ ہے کہ شمیم آپا سب سے اپنی عزت احترام کروانا چاہتی ہے لیکن خود اپنے باپ کا بھی لحاظ نہیں کرتی۔بہنیں ہر وقت باپ کو ایک دوسرے سے مسلسل متنفر کرنے کی کوششوں میں لگی رہتی ہیں۔ہر شخص اپنی جگہ اس گھر کے ماحول سے تنگ آچکا ہے۔اور مجرمانہ زندگی نے ہر ایک کو خودسر بنا دیا ہے۔ اور وہ باپ خود بھی جس نے اپنی اولاد کو خود اتنی ڈھیل دی۔آج اسکی سزا بھگت رہا ہے۔
دوسری طرف چھوٹے بھائی منور چچا کا گھر ہے۔جہاں اولاد کی بہترین تربیت کی گئی ہے۔گھر کی فضا بغض اور انا سے پاک ہے ۔بہنیں ایک دوسرے کی ہمدرد اور غم خوار ہیں۔ماں باپ ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں۔اولاد کی ضرورتوں کے ساتھ انکی خوشیوں اور غموں کا بھی احساس کرتے ہیں۔یہ وہ گھر ہے جہاں بیٹیاں والدین کو ایک دوسرے سے متنفر کرنے کی نہیں بلکہ ایک دوسرے سے راضی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔اور یہی اس گھر کی خوبصورتی ہے۔وہ خاندان کھوکھلے ہوجاتے ہیں جہاں بڑے چھوٹوں کو سب کی نظروں سے گرانے کی کوشش کرتے ہیں شمیم آپا کی طرح۔ اس ڈرامہ میں یہ زہریلا کردار ایک بیٹی ادا کر رہی ہے لیکن ضروری نہیں ہر کہانی میں ایسا کردار ایک بیٹی کا ہی ہو۔شمیم آپا کی شادی کی صورت میں یہ کردار بیوی،بہو اور ایک ماں کی بھی ہوسکتی ہے۔اور بعض اوقات باپ بھائی شوہر یا بیٹا بھی اتنا ہی زہریلا ہوسکتا ہے۔
بات ساری تربیت کی ہے۔شمیم آپا جیسی تمام کردار قابل رحم ہیں۔ان کے ساتھ بلکل ویسا رویہ اپنانا چاہئے جیسے ایک مریض کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔لیکن مزید کوئی شمیم آپا نہ بنیں اسکے لئیے اولاد کی بہترین تربیت کو اولین ترجیح دینے کی اشد ضرورت ہے۔ شمیم آپا میں اور اسکے چچا کی اولاد میں وہی فرق ہے جو ایک خودرو جھاڑی اور تراش خراش والے پودے میں ہوتا ہے۔یہ معاشرہ خودرو جھاڑیوں سے بھر چکا ہے۔یہاں ہر دوسرے گھر میں کوئی نہ کوئی شمیم آپا کا کردار نبھا رہا ہے۔اور منور چچا جیسے گھرانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ان دو گھروں میں میں صرف تعلیم و تربیت کا فرق ہے۔صرف اس ایک فرق کی وجہ سے ایک گھر جنت کا نمونہ بن چکا ہے تو دوسرا جہنم کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب “اولاد کی تربیت”ہماری اولین ترجیح ہو گی؟ آخر کب؟؟