شامی باغیوں کا سرکاری ٹی وی پر فتح کا اعلان، بشارالاسد کی بیرون ملک فرار کی اطلاعات، تمام قیدیوں کیلئے عام معافی ، الاسد خاندان شام پر پچاس سال سے زائد برسر اقتدار رہا
شامی باغیوں کا سرکاری ٹی وی پر فتح کا اعلان، بشارالاسد کی بیرون ملک فرار کی اطلاعات، تمام قیدیوں کیلئے عام معافی ، الاسد خاندان شام پر پچاس سال سے زائد برسر اقتدار رہا
دمشق( چترال ٹائمزرپورٹ)شامی باغیوں نے دارالحکومت پر قبضے کے بعد سرکاری ٹی وی پر پہلے ہی خطاب میں تمام قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا۔عرب میڈیا کے مطابق شامی باغیوں نے اپنی فتح کا اعلان سرکاری ٹی وی پر کرتے ہوئے بتایا کہ شام سے بشار الاسد حکومت کے طویل دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ پہلے خطاب میں شامی باغیوں کے رہنما ابومحمد الجولانی نے کہا کہ شام میں سیاہ دور کا خاتمہ کرنے کے بعد نیاعہد شروع ہونے جارہا ہے،شام کی تمام سرکاری،غیر سرکاری املاک اورتنصیبات کا تحفظ کیا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ جیلوں سے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا،عوام اور سابق حکومت کے فوجی سرکاری اداروں سے دور رہیں، سرکاری ادارے اس وقت سابق وزیراعظم کی نگرانی میں ہیں، شام میں ہوائی فائرنگ سختی سے منع ہے۔
بشارالاسد کی بیرون ملک فرار کی اطلاعات،وزیراعظم کا لاعلمی کا اظہار
دمشق(سی ایم لنکس)شام کے عبوری وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے بشارالاسد حکومت کے سقوط اور عبوری طور پر اقتدار سنھبالنے کے بعد کہا ہے کہ حکومت عوام کی طرف سے منتخب کردہ کسی بھی قیادت کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بشار الاسد کے ٹھکانے کا کوئی علم نہیں۔ وہ کہاں ہیں، آیا وہ ملک چھوڑ گئے ہیں یا نہیں اس حوالے سے ان کے پاس کسی قسم کی معلومات نہیں ہیں،ان کا بشارالاسد سے آخری رابطہ کل شام ہوا تھا۔ یہ ہمارا آخری رابطہ تھا”۔دوسری طرف آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ بشارالاسد آج اتوار کو دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے بیرون ملک فرار ہوگئے ہیں۔انہوں نے العربیہ اور الحدث کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ الاسد نے صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ “ہم کل دیکھیں گے”۔انہوں نے العربیہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہم نے ملٹری آپریشنز ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ بات چیت کی۔ ہم نے اداروں کے تحفظ کی اہمیت پر اتفاق کیا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “زیادہ تر وزراء دمشق میں ہی ہیں “۔
اخری اطلاع کے مطابق بشار الاسد اور انکی فیملی روس پہنچ گئے ہیں جہاں ان کو سیاسی پناہ دی گئی ہے۔
انہوں نے ھیتہ تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی الجولانی کے ساتھ بات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ پیش رفت میں الجولانی نے عبوری حکومت کے ساتھ تعاون کا یقین دلایا ہے“۔شام کے وزیر اعظم نے مزید کہا کہ “ملک میں رہنے کا میرا فیصلہ عارضی ہے اور ہم 400,000 ملازمین کو ان کی ملازمتوں پر واپس کرنے کی کوشش کریں گے”۔ انہوں نے شامی عوام کے گروپوں کے درمیان مفاہمت پر زور دیا۔اس سے قبل اتوار کے روز شام کے وزیر اعظم نے کہا کہ وہ عوام کی طرف سے منتخب کردہ کسی بھی قیادت کے ساتھ “تعاون” کرنے کے لیے تیار ہیں۔الجلالی نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں اعلان کیا کہ “یہ ملک ایک عام ملک ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو اپنے پڑوسیوں اور دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرتا ہے لیکن یہ معاملہ شام کی کسی بھی قیادت پر منحصر ہے۔ ہم ان کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ ہم انہیں تمام ممکنہ سہولیات فراہم کر سکیں“۔انہوں نے مزید کہا کہ”ہم شامی منتخب ہونے والی کسی بھی قیادت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ ہم تمام حکومتی فائلیں ان کو منتقل کر دیں گے”۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہ “شامی ریاست کے تمام اداروں کو محفوظ رکھا جانا چاہیے”۔انہوں نے کہا کہ وہ اپنے گھر میں رہیں گے اور ریاستی امور کے مسلسل انتظام میں تعاون کے لیے تیار ہیں۔قبل ازیں اتوار کی صبح سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا کہ صدر بشار الاسد دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے راستے شام سے روانہ ہوگئے ہیں۔ اس کے کچھ دیر بعد مسلح دھڑوں کے غیر معمولی حملے فوج اور سکیورٹی فورسز ہوائی اڈے کو خالی کرالیا۔آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمٰن نے کہا کہ “اسد شام سے دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے راستے روانہ ہوئے۔ اس کے بعد فوج نے ایئرپورٹ چھوڑ دیا تھا“۔
الاسد خاندان شام پر 50 سال سے زائد برسر اقتدار رہا
دمشق(سی ایم لنکس) شام میں الاسد خاندان 50 سال سے زائد عرصے تک برسراقتدار رہا، بشار الاسد کو اقتدار اپنے طاقتور فوجی والد سے وراثت میں ملا جو 1971 سے لے کر جون 2000 میں اپنی موت تک برسر اقتدار رہے۔الجزیرہ کے مطابق جولائی 2000، طب کے سابق طالبعلم بشار الاسد شام کے صدر، بعث پارٹی کے سربراہ اور فوج کے کمانڈر اِن چیف بن گئے۔11 سال بعد عرب بہار کے نتیجے میں شامی عوام جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہوئیسڑکوں پر نکلے تو بشار الاسد نے سخت کریک ڈاؤن کیا۔جیسے جیسے مزید شامی مظاہروں میں شامل ہوتے گئے، ویسے ویسے مخالفین کی اکثریت کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے والے صدر بشار الاسد طاقت کا استعمال بڑھاتے گئے جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔اس کے بعد کے برسوں میں لاکھوں شامی جاں بحق ہوئے اور بشار الاسد پر شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔جنگ کے سائے میں انہوں نے حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں انتخابات کرائے جنہیں بہت سے لوگوں نے غیر جمہوری قرار دے کر مسترد کر دیا۔جنگ کبھی نہ جیتنے کے باوجود بشار الاسد اپنے پیروکاروں بشمول اقلیتی علوی سیاسی جماعت کی حمایت سے اقتدار پر محدود طور پر قائم رہے۔
مارچ 2011: دمشق اور درعا میں پرامن مظاہرے شروع ہوئے۔ الاسد حکومت نے اس کے جواب میں پرتشدد کریک ڈاؤن کیا جس کے نتیجے میں مسلح بغاوت شروع ہوئی۔جولائی 2012: حلب کی لڑائی کے ساتھ تنازع شدت اختیار کر گیا، جس میں باغی افواج نے شہر کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیاتاہم شامی فوج نے 4 سال بعد اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔اگست 2013: مشرقی غوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں سیکڑوں شہری جاں بحق ہوئے، اس حملے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے اور شام اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو تباہ کرنے پر رضامند ہو گیا ہے۔جون 2014: داعش نے بڑے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد شام اور عراق میں خلافت کا اعلان کیا۔ رقہ شام میں ان کا اصل دارالحکومت بن گیا ہے اور ان کی حکمرانی 2019 تک جاری رہے گی۔ ستمبر 2015: روس نے الاسد کی حمایت میں براہ راست فوجی مداخلت کا آغاز کیا،روسی فضائی حملوں نے سرکاری افواج کے حق میں رخ موڑنے میں مدد کی۔اپریل 2017: خان شیخون میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے جواب میں امریکا نے شامی حکومت کے اہداف پر میزائل حملے کیے، بشارالاسد کی افواج کے خلاف یہ واشنگٹن کی پہلی براہ راست فوجی کارروائی تھی۔
نومبر 2024: گزشتہ 4 برسوں کے دوران یہ تنازع بڑی حد تک منجمد رہا، یہاں تک کہ گزشتہ ہفتے باغی مسلح گروہوں نے ادلب سے پیش قدم کا آغاز کیا اور حلب کے بعدپے در پے کئی اہم شہروں پر قبضہ کرتے ہوئے گزشتہ دمشق کو فتح کرلیا۔۔۔59 سالہ بشار الاسد نے 2000 میں اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد اقتدار سنبھالا تھا، دمشق میں پیدا ہونے والے بشار الاسد نے دمشق کے میڈیکل اسکول سے گریجویشن کیا اور آنکھوں کے علاج میں مہارت حاصل کرنے کے لیے لندن میں زیر تعلیم تھے تاہم اپنے بھائی کی موت کے بعد واپس شام آ گئے۔توقع کی جا رہی تھی کہ ان کے بڑے بھائی باسل الاسد اپنے والد کی جگہ ملک کے سربراہ بنیں گے لیکن ایک کار حادثے میں ان کی موت ہو گئی تھی۔واضح رہے کہ شام کے صدر بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے ہیں، دارالحکومت دمشق میں باغیوں کے داخل ہونے کے بعد ہزاروں افراد نے مرکزی چوک میں جشن مناتے ہوئے آزادی کے نعرے لگائے۔برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق شامی فوج کی کمان نے افسران کو مطلع کیا ہے کہ باغیوں کے حملے کے بعد صدر بشار الاسد کی حکومت ختم ہو گئی ہے۔شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ دمشق ’اب اسد سے آزاد ہے‘، فوج کے دو سینئر افسران نے رائٹرز کو بتایا کہ اس سے قبل بشار الاسد اتوار کے روز دمشق سے کسی نامعلوم مقام کے لیے روانہ ہوگئے تھے کیونکہ باغیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دارالحکومت میں داخل ہوگئے ہیں اور فوج کی تعیناتی کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہزاروں افراد گاڑیوں اور پیدل دمشق کے ایک مرکزی چوک پر جمع ہوئے اور ہاتھ ہلا کر ’آزادی‘ کے نعرے لگائے۔