
سیاست دانوں کے اثاثے ………….محمد شریف شکیب
عام انتخابات میں حصہ لینے والے26ہزار امیدواروں نے اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرائے ہیں ۔انتخابی میدان میں اترنے والے دو ہزار سات سو امیدوار ایسے ہیں جن کے خلاف قرضے لے کر معاف کرانے، اربوں کی خرد برد، جرائم میں ملوث ہونے ، قتل، ریپ، بھتہ خوری، منی لانڈرنگ ، انسانی سمگلنگ اور دوہری شہریت رکھنے کے الزامات ہیں۔ ان امیدواروں میں سے 235کا تعلق خیبر پختونخوا، 1270کا پنجاب، 775کا سندھ اور ایک سو پندرہ کا بلوچستان سے ہے۔اگر پارٹیوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ 588کا تعلق پیپلز پارٹی، 485 کا مسلم لیگ ن،401کا تحریک انصاف، ایک سو بیس کا عوامی نیشنل پارٹی، 69 کا جمعیت علمائے اسلام اور49کا جماعت اسلامی سے ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق صرف 70افراد پر قوم کے 800ارب روپے کھانے کا الزام ہے۔ ایک سو بائیس افراد ایسے ہیں جن کے پاس پاکستان کے علاوہ دیگر ملکوں کی شہریت بھی ہے۔ اور کوئی برا وقت آنے کی صورت میں وہ ملک سے بھاگ سکتے ہیں ان میں سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنما شامل ہیں۔اثاثوں کے جو گوشوارے جمع کرائے گئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ چند سیاست دان ارب پتی ہونے کے باوجود اپنی بیویوں کے مقروض اور ان سے کم اثاثوں کے مالک ہیں۔ارباب عالمگیر کے اثاثوں میں ایک ارب 33کروڑ 75لاکھ کی اراضی،چوراسی کروڑ اور ساٹھ کروڑ کے دو پلازے اور تین گاڑیاں شامل ہیں جبکہ ان کی بیگم عاصمہ کے پاس 300تولے سونا، اسلام آباد میں دس کروڑ کے دو بنگلے، اور ایک ٹیوٹا کار سمیت مجموعی طور پر4ارب تین کروڑ پچاس لاکھ سے زیادہ کے اثاثے ہیں۔امیر مقام کے اثاثوں کی مالیت 76کروڑ 13لاکھ ہے جن میں سوات، پشاور اور اسلام آباد کے بنگلے شامل ہیں ان کے پاس چار ذاتی گاڑیاں اور دو کروڑ کے پرائز بانڈ ہیں۔ تاہم وہ اپنی بیوی کے ایک کروڑ کے مقروض ہیں۔ ان کی بیگم کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب23کروڑ سے زیادہ ہے۔ اسفندیار ولی نے چار کروڑ گیارہ لاکھ اور آفتاب شیرپاو نو کروڑ 39لاکھ کے اثاثے ظاہر کئے ہیں۔جبکہ شیرپاو کی اہلیہ کے پاس نو کروڑ 72لاکھ کے اثاثے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق سب سے غریب سیاست دان نکلے ۔ ان کے پاس چار تولے سونا، بارہ کنال کی مشترکہ زمین اور نجی سکول میں حصہ داری کے علاوہ اٹھارہ لاکھ کا بینک بیلنس ہے۔سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک صرف بارہ کروڑ96لاکھ کے اثاثوں کے مالک نکلے وہ ڈھائی کروڑ کے مقروض بھی ہیں جبکہ ان کی اہلیہ کے پاس صرف 53تولے سونا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنے اثاثوں میں چالیس لاکھ کے دو گھر، سات لاکھ کا ایک پلاٹ اور بیگم کے پاس نو لاکھ پچاس ہزار کے زیورات ظاہر کئے ہیں۔ ان کے پاس اپنی گاڑی تک نہیں۔ شہباز شریف نے بھی خود کو مقروض ظاہر کیا ہے۔ بہت سے ارب پتی اور کروڑ پتی سیاست دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ دولت کی ریل پیل کے باوجود ان کے پاس ذاتی گاڑی نہیں ہے۔ کسی کو دوستوں ، عزیزوں نے وقتی طور پر استعمال کرنے کے لئے گاڑیاں دی ہیں۔ کسی نے پولیس کے ذریعے سپرداری کی گاڑیاں حاصل کر رکھی ہیں۔کچھ سیاست دانوں نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے دو دو شادیاں کررکھی ہیں۔سب سے دلچسپ امر یہ ہے کہ ان سیاست دانوں نے اپنے محلات کی قیمت کوڑیوں میں ظاہر کی ہے۔ عمران خان نے بنی گالا میں 300کنال پر محیط اپنے گھر کی قیمت 76کروڑ روپے بتائی ہے۔ شریف برادران نے رائے ونڈ کے قریب جاتی عمرا میں 25ہزار کنال پر محیط اپنے عالیشان محل کی قیمت صرف 90لاکھ ظاہر کی ہے۔ جبکہ بلاول نے 70کلفٹن والا ڈھائی ہزار کنال پر محیط بلال ہاوس کی قیمت صرف 35لاکھ روپے بتائی ہے۔ جس پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بلاول کو بلاول ہاوس50لاکھ روپے میں خریدنے کی پیش کش کی ہے۔یہ تمام سیاست دان کوئی دوسرا کاروبار یا کام دھندہ نہیں کرتے۔ سیاست ہی ان کا واحد ذریعہ روزگار ہے۔اور اس میدان میں دہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ جبھی تو وہ دوسروں کو سیاست میں آگے آنے نہیں دیتے۔ قبر میں پاوں لٹکانے کے باوجود اللہ اللہ کرنے کے باوجود کرسی کرسی کھیلتے ہیں۔کن کن لیڈروں نے اپنے کتنے اور کن کن رشتہ داروں کو ٹکٹ دیئے ہیں ان کی فہرست کافی طویل ہے جس پر الگ کالم لکھا جاسکتا ہے۔اکثر سیاسی خاندانوں نے خود کو مختلف پارٹیوں میں تقسیم کررکھا ہے تاکہ جوبھی حکومت آئے ان کا خاندان اقتدار میں رہے۔ان ریکارڈ دروغ گوئیوں کے باوجود وہ خود کو صادق اور امین سمجھتے اور مملکت خداداد پاکستان پر حکمرانی کا حقدار گردانتے ہیں۔اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے کہ ووٹ کی پرچی کے ذریعے ان کا محاسبہ کریں۔