
سکردو میں قیام کا آخری دن اور ادبی نشستیں……عبدالکریم کریمی
کل دوست محترم پروفیسر حشمت کمال الہامی کی طرف سے دی گئی پُرخلوص دعوت سے فارغ ہوکر ہم مشہ بروم ہوٹل کے وسیع ہال میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہم سے ذرا دور خواتین کا ایک گروپ آپس میں خوش گپوں میں مصروف تھا۔ یہ غالباً کسی کی ولیمہ کی دعوت تھی۔ مرد و زن زرق برق لباس میں اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ ہماری نزدیکی میز سے ایک خاتون ہماری طرف آئی اور براہِ راست سوسن کا نام لے کر ان سے بغلگیر ہوئیں۔ سوسن کے ساتھ ہم سب اس اجنبی خاتون کے اس پُرخلوص انداز پر حیران سے رہ گئے۔ انہوں نے کہا میں نے آپ کی شادی کی تصاویر ’’فکرونظر‘‘ میگزین میں دیکھی تھیں اس لیے پہچان لیا۔ انہوں نے مجھے بھی سلام کیا۔ پروفیسر کمال الہامی سے بھی ہمکلام ہوئیں۔ تعارف ہوا تو معلوم پڑا کہ وہ فدا ناشاد صاحب کی صاحبزادی اور ہمارے دوست بشارت ساقی کی شریکۂ حیات ہیں۔ گفتگو جاری تھی کہ بشارت ساقی بھی تشریف فرما ہوئے۔ یوسف حسین آبادی صاحب سے بھی ملے۔ ناشاد صاحب کا صاحبزادہ جو مشہ بروم ہوٹل کے اونر ہیں، سے بھی ملاقات ہوئی۔ ناشاد صاحب کی دوسری صاحبزادی بھی تقریب کا حصہ تھیں۔ پروفیسر صاحب بڑے مان اور شان سے ہر ایک سے ہمارا تعارف کرا رہے تھے ’’یہ سوسن پری ہیں اور یہ کریمی صاحب۔ ان کی شادی پر میں نے خصوصی سہرا لکھا تھا۔‘‘ پھر سہرے کا ایک آدھ اشعار بھی سناکر گویا محفل کو زعفراں زار بنا رہے تھے۔ یوں قہقہوں سے تعارف کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر جب بوفے کھل گئے اور کھڑے کھانے کا دور چلا۔ ناشاد صاحب کی صاحبزادی بارِ دیگر ہماری میز پر آئیں اور پُرخلوص لہجے میں کھانے میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ ہم چونکہ کچھ دیر پہلے پروفیسر صاحب کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوچکے تھے۔ مٹن ہانڈی ہم پہلے بھی کئی بار کھا چکے تھے لیکن آج جو لذت محسوس ہو رہی تھی اس میں یقیناً پروفیسر صاحب کی محبت بھی شامل ہوکر اس کو مزید ذائقہ دار بنا چکی تھی۔ ہانڈی جس برتن میں لایا گیا تھا اسے دیکھ کر آشا کو سنووائٹ اور رپنزل کے برتن ایک بار پھر یاد آگئے تھے۔ ’’وہ دیکھو بابا! سنو وائٹ کا کھانا۔‘‘ یہ جملہ کئی بار کانوں سے ٹکرایا تھا۔ میں نے ننھی آشا کو کہا بیٹا! کچھ چیزیں دیکھنے کی نہیں کھانے کی ہوتی ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی ناشاد صاحب کی صاحبزادی کے اصرار کی کہ ہم ان کی دعوت میں شامل ہو جائیں لیکن یہ ممکن نہیں تھا ہم نے خلوصِ دل سے ان کا شکریہ ادا کیا۔ ہم محترمہ کے ادبی ذوق سے پہلے ہی متاثر ہوچکے تھے کھانے کی دعوت نے یہ ثابت کر دیا کہ ناشاد صاحب نے اپنی اولاد کی تربیت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ حیرت ہوئی بلتستان کی خواتین بھی کتنا ادبی ذوق رکھتی ہیں پانچ سال پہلے میگزین میں میری اور سوسن کی شادی کے حوالے سے تصاویر و تحاریر چھپیں اور ان کو اب تک یاد ہے۔ شاید ساری بلتستان کی خواتین ایسا ادبی ذوق نہ رکھتی ہوں۔ یہ صرف ناشاد صاحب جیسی علمی و ادبی شخصیات کی صاحبزادیوں تک محدود ہو۔ ’’شیروں کے پسر شیر ہی ہوتے ہیں جہاں میں‘‘ تو سنا تھا، ناشاد صاحب کی صاحبزادی سے مل کر اس مصرع کو یوں کہنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئیے کہ شیروں کی دُختر بھی شیر ہی ہوتی ہیں۔ یہ پسر ہو یا دختر اگر ادب شناس ہو تو ماں باپ کے لیے نیک بختی کی علامت ہوا کرتے ہیں۔
ہم خوش گپوں میں مصروف تھے کہ ناشاد صاحب خود بھی تشریف لائے۔ انہوں نے بھی کھانے کی دعوت دی۔ جب ہم نے کہا کہ ہم کھانا کھا چکے ہیں تو انہوں نے دوسرے دن کے لیے دعوت دی اور تب کہیں جاکر ان کو سکون ملا۔ کھانا کے بعد ناشاد صاحب، ان کی صاحبزادی اور بشارت بھائی ایک دفعہ پھر ہماری میز پر تھے اب کی بار ان کا اصرار تھا کہ کھانا نہ صحیح سویٹ ڈش میں ہی شامل ہو جائے۔ اب کی بار انکار ممکن نہیں تھا۔ سویٹ ڈش ہماری میز کی زینت بن چکی تھی۔ یہ بلتستان کی مٹی کی تاثیر ہے کہ اہالیانِ بلتستان مہمان نوازی میں اپنے منہ کا نوالہ تک مہمان کو پیش کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ جس کا عینی مشاہدہ آج ہم بنفس نفیس کر رہے تھے۔ اللہ پاک انہیں شاد و آباد رکھے۔
سویٹ ڈش سے فراغت کے بعد ہمیں شگر جانا تھا جس کا تذکرہ کل کے کالم میں ہوچکا ہے، سو ہم نکل گئے۔ جب ہم میز سے اٹھ رہے تھے جہاں ناشاد صاحب ہمیں الوداع کے ساتھ دوسرے دن کی دعوت کی یاد دلا رہے تھے وہاں ان کی صاحبزادیاں اور ولیمے کی مہمان خواتین سوسن سے بغلگیر ہوتے ہوئے انہیں خدا حافط کہ رہی تھیں۔ اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں ایسی خالص محبت، مہمان نوازی اور خلوص صرف اہالیانِ بلتستان کا ہی خاصہ ہیں۔ اللہ پاک اس جذبے کو سلامت رکھے۔
آج پروگرام کے مطابق ہمیں دو بجے دوست محترم الحاج فدا محمد ناشاد سابق ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو و موجودہ اسپیکر قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کی دعوت پر ایک دفعہ پھر مشہ بروم ہوٹل پہنچنا تھا۔ اس لیے صبح ہم کچورا اور شنگریلا کی یاترا کے لیے نکلے۔ بچوں نے شنگریلا کو خوابوں کی سرزمین قرار دیا۔ شنگریلا میں اچھا وقت گزرا۔
واپسی پر جب ہم مشہ بروم ہوٹل میں داخل ہو رہے تھے۔ دن کے ڈھائی بج رہے تھے۔ کونے کی میز پر ناشاد صاحب اور پروفیسر کمال الہامی صاحب بار بار اپنی کلائیوں میں بندھی گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ جب ان کی نظر ہم پر پڑی۔ انہوں نے ہمیں دل سے خوش آمدید کہا۔ تھوڑی دیر میں کھانا دسترخواں کی زینت بن چکا تھا۔ ابلے ہوئے چاول کے ساتھ مٹن کڑاہی، روسٹ، مگس سبزی، دال اور تندور کی گرم گرم روٹیوں نے جہاں دسترخواں کو ذائقہ دار بنا دیا تھا وہاں ہمارے منہ میں بھی پانی بھر گیا تھا۔ ہر نوالے پر ہم ایک دفعہ پھر حیرت میں پڑ گئے تھے کہ یہ واقعی کھانے کی لذت ہے یا اس لذت میں ناشاد صاحب کے خلوص و محبت کی شراکت بھی شاملِ حال ہے کہ ہر لقمے کے ساتھ انگلیاں بھی چاٹنی پڑ رہی تھیں۔
کھانے کے بعد قہوہ کے ساتھ ادبی نشست کا آغاز ہوا۔ پروفیسر کمال الہامی صاحب کی فرمائش پر میں نے اپنی دو چار نثری نمونے پڑھ کر سنایا۔ ناشاد صاحب نے اپنا تازہ کلام سنایا۔ پروفیسر صاحب نے ادب پر بات کی۔ ناشاد صاحب نے اپنے حمدیہ و نعتیہ شعری مجموعے کی جلد منصۂ شہود پر آنے کی خوش خبری دی۔ ہم نے انہیں اس ادبی کارنامے پر پیشگی مبارک باد پیش کی۔ ناشاد صاحب اپنی ہر علمی کاوش پر ہمیں ضرور یاد کرتے ہیں۔ ان کی دو چار کتابیں بطور اعزازی کاپی میری ذاتی لائبریری کی زینت ہیں۔ انہوں نے ایک اور کتاب ’’سفیر ولایت‘‘ کے نام سے جو علامہ آغا سید علی الموسوی مرحوم کے فن و شخصیت پر مرتب کی گئی ہے، کی کاپی عنایت کرنے کا کہا۔ جوکہ بدست پروفیسر کمال الہامی صاحب ہم نے رات کو وصول کی۔ یوں ناشاد صاحب کے شکریے کے ساتھ ہم نے ان سے اجازت لی کہ آج سکردو میں ہمارے قیام کا آخری دن تھا، مصروفیات زیادہ تھیں، وقت کم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس بار ہم محترم حسن حسرت صاحب سے ملنے کی ہزار چاہت کے باوجود وقت نہیں نکال سکے۔ امید ہے وہ محسوس نہیں کریں گے۔ اب جب کہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں رات کا پچھلا پہر ہے۔ اس وقت بھی میں پروفیسر صاحب سے مل کر آرہا ہوں۔ پریشان چوک کے قریب ایک کافی شاپ پر کافی لمبی نشست رہی۔ ہاتھ میں کافی کا مگ ہو، فلک سے چاند نور برسا رہا ہو اور ہمکلام پروفیسر کمال الہامی جیسی علمی و ادبی شخصیت ہو تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنی زائقہ دار نشست رہی ہوگی.