
سپہ سالار کی بروقت تنبیہ – محمد شریف شکیب
سپہ سالار کی بروقت تنبیہ – محمد شریف شکیب
پاک فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردی کی نئی لہر اور معاشی و سیاسی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پاکستان نیول اکیڈمی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف کا کہنا ہے کہ ملک انتہائی نازک موڑ پر ہے۔ اس مرحلے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر ملک کو بحران سے نکالنے کی حکمت عملی طے کرنی ہوگی۔ جب ملک دہشت گردی، بدامنی، معاشی بحران، سیاسی خلفشار سے دوچار ہونے لگے۔تو ریاستی ادارے خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے۔ سپہ سالار نے جن خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ان خطرات کا احساس دیگر ریاستی ادارے،سیاسی قائدین، دانشور،سماجی حلقے اور عوام بھی کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر معیشت کی بحالی کیلئے ٹھوس اور فوری اقدامات نہیں کئے گئے تو ملک دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے اس صورت میں ہمارا جوہری پروگرام بھی خطرے میں پڑسکتا ہے جس سے ہماری سلامتی کا براہ راست تعلق ہے۔سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کی وجہ یہی تھی کہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہونے کے باوجود سوویت یونین کی معیشت تباہ ہوگئی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ سوویت یونین کی سرزمین پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔اس کے پاس جوہری ہتھیار بھی تھی دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت بھی تھی۔ مگر معاشی بدحالی کی وجہ سے سوویت یونین کے نو ٹکڑے ہوگئے۔بدقسمتی سے ماضی میں ہماری حکومتیں اپنے وسائل سے استفادہ کرنے کے بجائے غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرتی رہیں۔ ملازمین کو تنخواہیں دینے اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے بھی قرضے لئے جاتے رہے۔سولہ سال قبل پاکستان پر 37ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے تھے۔ ان سولہ سالوں میں یہ قرضے 130ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔
ان غیر ملکی قرضوں سے ہماری حکومتوں نے کوئی بڑے ڈیم، بجلی گھر، صنعتی بستیاں، زرعی و ڈیری فارم نہیں بنائے۔بلکہ یہ رقم قرضوں کی اقساط، سود کی ادائیگی، اپنی عیاشیوں اور سیاسی قسم کے منصوبوں پر اڑائے گئے۔دھڑا دھڑ نوٹ چھاپ کر افراط زر کا بڑھایا جاتا رہاجس کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی گئی۔ روپے کی قدر گرتی رہی۔2007میں ایک ڈالر 50روپے کا تھا۔ایک سال پہلے ڈالر کی قیمت 160روپے تھی آج 245روپے ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ہماری درآمدات کے بل دگنے ہوگئے ہیں۔قدرتی نے ہمیں زرخیز زمین، وافر آبی ذخائر، جفاکش افرادی قوت، بے شمار معدنی ذخائر، دلکش سیاحتی مقامات سمیت ہر نعمت سے نوازا ہے مگر انہیں ملکی ترقی کے لئے بروئے کار لانے کی کسی بھی حکومت نے زحمت گوارا نہیں کی۔ ڈیم اور پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے بجائے تیل سے بجلی پیدا کرنے کے مہنگے سودے کرتے رہے اور ان سودوں میں ہمارے حکمران کروڑوں ڈالرز کے کمیشن اور کک بیکس لیتے رہے۔جس کا خمیازہ آج قوم کو مہنگی بجلی، مہنگی گیس کی صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے۔
زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم، دالیں، سویابین آئل مہنگے داموں دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں اب تو ٹماٹر اور پیاز بھی درآمد کرنے لگے ہیں۔ہمارے حکمرانوں اور افسروں کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ وہ صرف افسری اور حکمرانی کرنے اپنے ملک آتے ہیں ان کے تمام اثاثے، کاروبار اور گھر بار یورپ اور امریکہ میں ہے۔اس لئے انہیں آٹے، دال، پیاز اور ٹماٹر کے دام معلوم نہیں،وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ ملک معاشی بحران سے دوچار ہے اس کے باوجود اپنی عیاشیاں کم کرنے کے بجائے عوام پر ہی بوجھ ڈالتے جارہے ہیں۔ ایک مفلوک الحال اور مقروض ملک کی حکومت میں 95وزیراور مشیر ہوں تو حکمران قوم اور ملک کے لئے کتنے فکر مند ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ سپہ سالار نے خطرے کی نشاندہی تو کردی ہے اور اس سے نکلنے کے لئے قومی اتفاق رائے کی تجویز بھی دی ہے۔ انہیں قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔کیونکہ سیاست کا قبلہ بھی اب اسٹبلشمنٹ ہی درست کرسکتی ہے۔