Chitral Times

Apr 29, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سرحدی علاقوں میں عدم تحفظ کا احساس – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

سرحدی علاقوں میں عدم تحفظ کا احساس – محمد شریف شکیب

حالیہ دنوں افغانستان کے سرحدی علاقے نورستان سے چترال کے علاقہ جنجریت کوہ میں دراندازی اور چترال سکاوٹس کی دو پوسٹوں پر حملوں کی خبر ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔جنجریت کوہ لوئر چترال کی تحصیل دروش کی حدود میں واقع ایک دور افتادہ اور پسماندہ سرحدی علاقہ ہے۔یہاں سے افغان صوبہ نورستان دو تین گھنٹے کی پیدل مسافت پر ہے۔ماضی میں بھی بارہا نورستانی لوگ جنجریت کوہ کی چراگاہ پر دھاوا بول کر بکریاں اور مال مویشی لوٹ کر لے جاتے رہے ہیں۔جنجریت کا بیشتر حصہ سابق والی چترال کے بھتیجے شہزادہ سلیمان کی جاگیر ہے۔اس علاقے کی آبادی پانچ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔پہاڑوں کے دامن میں واقع اس دور افتادہ علاقے کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا سہرا سابقہ ایم پی اے بیگم شہزادہ سلیمان کے سر ہے۔چونکہ بھٹو خاندان کے ساتھ بیگم سلیمان کے خاندانی مراسم تھے۔

 

اس لئے بیگم سلیمان نےذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں اس علاقے کے لئے کئی ترقیاتی منصوبے منظور کرائے جن میں آٹھ کلو میٹر جیپ ایبل سڑک، ہائی سکول، مدرسہ، بجلی گھر اور سیکورٹی پوسٹ شامل ہیں۔ بیگم سلیمان کی کاوشوں کی بدولت آج مہنگائی کے اس دور میں بھی جنجریت کے لوگ مفت بجلی کی سہولت سے استفادہ کر رہے ہیں۔اور ان سے ایک روپیہ بھی بل کی مد میں وصول نہیں کیا جاتا۔بیگم سلیمان پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں شامل ہیں۔ چترال میں ڈگری کالج کے قیام، بجلی گھر کی تعمیر، راشن کارڈ متعارف کرانے کے علاوہ لواری ٹنل پر کام شروع کروانے میں بھی ان کی کاوشیں شامل ہیں انہوں نے سینکڑوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمتیں دلوائیں۔ان خدمات کے صلے میں انہیں مادر چترال کےنام سے یاد کیا جاتا ہے۔

 

انہیں بھی یہ شکایت ہے کہ حکومت کی طرف سے جغرافیائی اہمیت کے اس علاقے کی تعمیر و ترقی ،عوام کو بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی اور عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ جنجریت اور وادی کالاش کے بالائی علاقے قدرتی حسن سے مالا مال ہیں یہاں کئی سیاحتی مقامات ہیں وہاں تک سڑک اور دیگر سہولیات اگر بہم پہنچائی جائیں تو سالانہ ہزاروں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح اس خوبصورت علاقے کی سیاحت کے لئے آسکتے ہیں جس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے ان کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔افغانستان کے سرحدی علاقوں کے قریب واقع دیہات کے لوگ طویل عرصے سے عدم تحفظ سے دوچار ہیں۔ سرحد پار سے مسلح جتھے ماضی میں ہر سال دو سال بعد ان علاقوں پر یلغار کرتے اور لوٹ مار مچاتے رہےہیں۔چھ ستمبر کو دہشت گردی کے واقعات کے بعد چترال کے سرحدی علاقوں کے سیکورٹی ایشوز قومی سطح پر اجاگر ہوئے ہیں۔ اور یہ مسائل ریاست پاکستان سے فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔

 

سرحد پار سے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے چترال کےعوام کو بالعموم اورجنجریت کوہ ، ارسون، بمبوریت، بیریر، رمبور، شیخ سلیم اور دیگر سرحدی دیہات میں رہنےوالوں کو عدم تحفظ کے احساس سے دوچار کردیا ہے۔سرحد پار سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے افغان حکومت سے بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کےساتھ سرحدی علاقوں کی آبادی کو محفوظ بنانے کےلئے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔چترال کے عوام خصوصا وادی کالاش، جنجریت کوہ، ارسون اور ارندو کے باسی یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ریاست پاکستان انہیں تحفظ فراہم کرنے کی بنیادی ذمہ داری نبھانے کے لئے فوری اقدامات کرے گی۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
79047