
ذرا سوچئے – تبخيری دم یا ایٹم بم – ہما حیات
ذرا سوچئے – تبخيری دم یا ایٹم بم – ہما حیات
صبح سے شام تک آپ آسمان میں کتنی دفعہ سفید بادلوں کی لکیر دیکھتے ہیں جو کچھ ہی دیر بعد فضا میں جذب ہو کر غائب ہو جاتی ہیں؟ میری نظر بھی اسمان پر بنے ایسے ہی بادلوں کی سفید لائن پر پڑی جو انگریزی حرف ایکس کی شکل میں تھا۔ کمسٹری کی طالبہ ہونے کی حیثیت سے یہ مجھے ایکس کم اور خطرے کا نشان زیادہ محسوس ہو رہا تھا اور میں اس ایکس کے بیچ میں اپنی کھوپڑی تصور کر رہی تھی۔
در اصل آسمان پر بننے والے ان سفید لائن کو تبخیری دم یا تکاثفی دنبلہ کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے کونٹریلز کہتے ہیں۔ یہ جیٹ انجن سے نکلنے والے ابی بخارات کی وجہ سے بنتا ہے۔ اب اگر میں اس کے بننے کے عمل کو بیان کرنے بیٹھ جاؤں تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ مختصر یہ کہ ہوائی جہاز سے نکلنے والے صرف ابی بخارات نہیں ہوتے بلکہ ان میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر اکسائیڈ، نائیٹروجن اکسائیڈ، کاربن مونو اکسائیڈ، ہائڈرو کاربن جیسے گیسیز کا اخراج بھی ہو تا ہے۔ پہلے پہل تو ان کونٹریلز کو بے ضرر سمجھا جاتا تھا لیکن نئی تحقیق کے مطابق یہ انسانی صحت کے لیے بے حد مضر ہیں۔ اس کے علاوہ ان سے خارج ہونے والا کاربن ڈائی اکسائیڈ اور دیگر اکسائیڈز گرین ہاؤس گیسیز بننے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں جس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور اسے ہم ماحولیاتی تبدیلی کا نام دیتے ہیں۔
بہرحال ترقی یافتہ ممالک جیسے چائنہ اور دیگر ممالک کہ جن میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کا اخراج زیادہ ہوتا ہے، ماحولیاتی تبدیلی میں بھی ان کا تعاون زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ ان کے مقابلے میں ہم ماحولیاتی تبدیلی کے کم ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ضروری ہے کہ ہم کم سے کم بھی ذمہ دار نہ ہوں لیکن حال ہی میں افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے ان جہازوں کا انٹرنیشنل روٹ بھی چترال کے اوپر سے گزر رہا ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے گلیشیرز کو نقصان پہنچ رہا ہے جو پہلے سے ہی خستہ حال ہیں۔ اب ان گلیشیرز کے پگھلنے سے ہمارے اوپر کیا اثر پڑتا ہے یہ اپ بخوبی جانتے ہیں۔ نہ صرف چترال بلکہ پورے خیبر پختونخواہ، جنوبی پنجاب اور سندھ بھی اس کے زیر اثر آجاتے ہیں۔ ملک کا ادھا حصہ تباہ ہو جاتا ہے اور اس تباہی سے نکلنے میں ہمیں کتنا وقت لگتا ہے اور ہماری معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا حساب اپ خود لگا لیں۔ ماحولیاتی تبدیلی پر میں پہلے بھی بات کر چکی ہوں لیکن اس بار لگتا ہے کہ یہ جہازہمارے اوپر آبی بخارات نہیں بلکہ ہمارے گلیشیرز پر ایٹم بم گرا رہی ہے۔ اس لیے ان ساری باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان پروازوں کے روٹ کو تبدیل کرے اور ان گلیشیرز کو تحفظ فراہم کرے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو ذرا سوچئے۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس قدر خطرات میں گھیر جائیں کہ ان کی نشاندہی کرنے کے لیے ہماری کھوپڑیاں کم پڑ جائیں۔