
ذرا سوچئے۔ اپ کا پسندیدہ مشعلہ – تحریر: ہما حیات سید
ذرا سوچئے۔ اپ کا پسندیدہ مشعلہ – تحریر: ہما حیات سید
لمحے بھر کو مجھے ایسا لگا گویا مجھے دل کا دورہ پڑ رہا ہو۔ ہاتھ کانپے اور دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی۔ میں بے سختہ پانی کے جگ کی طرف لپکی۔ دو گھونٹ لیے تو کچھ سکون ملا۔ پھر میز پر رکھے ادویات پر نظر ڈالی جن کی کرواہٹ ابھی تک زبان پر موجود تھی۔ دل کر رہا تھا زور سے دیوار پر دے ماروں لیکن زندگی کا سوال ہے، اگر بیماری سے نجات چاہیے تو کڑوی گولی تو کھانی پڑے گی۔ خیر منہ کا ذائقہ تو ادویات نے خراب کیا ہی ہے، مزاج میں تلخی گھولنے کے لیے کچھ خبریں کافی ہیں.
چترال میں سوشل میڈیا پر روز نئے شوشے ہوتے رہتے ہیں جس پر اگر، بکر اور ذکر تمام اپنے زریں خیالات کا اظہار کرتے ہیں. ازادیِ اظہارِ رائے ایک جمہوری ریاست میں اپ کا شہری حق ہے لیکن اس کا صحیح استعمال بھی اپ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو چترال میں بہت سے معاملات چل رہے ہیں جن میں سے ایک لیکشن بی بی کے بھیجے ہوئے کتب اور علماء صاحبان کے خدشات ہیں اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے میں بتاتی چلوں کہ میں نہ تو کوئی نہایت عالم و فاضل ہوں کہ اسلام کی باریکیوں کو سمجھ سکوں اور علمائے کرام پر تنقید کروں اور نہ ہی اتنی تنگ نظر یا لبرل کی انکھیں بند کر کے لیکشن بی بی کے خلاف یا ان کی حمایت میں بول پڑھوں. میں صرف سائنس کی طلباء ہوں اور بہتر معاشرے کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرنا فرض سمجھتی ہوں۔ ( نوٹ: قلم کی حرکت پر نظر جمائیں شکاریوں سے التماس ہے کہ مضمون کی پس منظر اور مرکز خیال کو اپنے اشتعال انگیز تبصروں کے لیے استعمال کرنے سے گریز کریں .شکریہ)
تو قصہ یوں ہے کہ کچھ دن پہلے لیکشن بی بی جن کا تعلق کیلاش وادی سے ہے اور امریکہ میں مقیم ہے ایک سال سے چترال کے لیے کتابوں کا تحفہ بھیجنے کی کوشش کر رہی تھی اور اخر کار وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئی۔ اپنے ویڈیو پیغام میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ صرف چترال کو علم کا تحفہ دینا چاہتی ہیں. انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنے جیب سے بھی پیسے ادا کیے ہیں تاکہ یہ کتابیں حاصل کر سکیں اور ہم تک پہنچا سکیں جس کے لیے ہم ان کے بے حد مشکور ہیں۔ دوسری طرف علماء صاحباں نے تشویش ظاہر کیا ہے کہ جو کتابیں امریکہ سے یہاں بھیجی گئی ہیں۔ ان کے مواد، نصاب اور مصنفین کے حوالے سے کچھ خاص علم نہیں ہے۔ لہذا ان کتابوں کی تقسیم سے پہلے ان کا بغور جائزہ لیا جائے اور ان کی جانچ پڑتال کی جائے. چونکہ یہ کتابیں غیر ملکی مصنفین کی ہیں جن کا رہن سہن، طور طریقہ اور عقائد ہم سے بالکل مختلف ہیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ان میں کوئی ایسا مواد موجود ہو جو چترال کے امن و ثقافت، تہذیب و تمدن اور مذہب کے تحفظ کے لیے خطرہ ہو۔ اگر دیکھا جائے تو دونوں فریق اپنی جگہ درست ہیں اگر قوم کی بیٹی اپنے علاقے کی ترقی و بہبودی کے لیے کتابوں کا تحفہ دینا چاہتی ہے تو اس سے بڑھ کر نیکی کا کام کیا ہو سکتا ہے؟ اور اگر علمائے کرام چترال کے امن و ثقافت اور مذہب کے تحفظ کے لیے ان کا جانچ پڑتال کرنا چاہتے ہیں تو اس میں برائی ہی کیا ہے؟
امریکہ اور پاکستان کا ماحول بہت مختلف ہے۔ ہم اسلامی ملک میں رہتے ہیں جبکہ وہاں عیسائی مذہب رائج ہے۔ وہاں کے اخلاقیات اور ہمارے اخلاقیات میں زمین اسمان کا فرق ہے۔ مشرقی ماؤں کا بچوں کے تربیت کا انداز کچھ اور ہے جبکہ مغربی ماؤں کا انداز کچھ اور ہی ہے. ایسے میں ان کتابوں کے ذریعے دو مختلف تربیتوں کا ٹکراؤ نقصان دہ ہو سکتا ہے. ہاں اگر یہ کتابیں سائنس ٹیکنالوجی ادب و فنون کے حوالے سے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ بے شک تہذیب و تمدن، زبان، رہن سہن، دنیا کو دیکھنے کا نظریہ حتی کہ عقیدے میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن سائنس اور جدید ٹیکنالوجی سب کے لیے ایک ہی ہیں۔ کاربن چاہے امریکہ کا ہو یا پاکستان کا اس کی ویلنسی چار (۴) ہی ہوگی پانی چاہے دنیا میں کہیں پہ بھی ہو اس کا کیمیکل فارمولا H2O ہی ہو گا اور یہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی ہی کی بدولت ہے کہ اج ہم ایٹمی قوت بنے بیٹھے ہیں.
اگر سارے معاملے کو دیکھا جائے تو نہ لیکشن بی بی نے چترال کے تہذیب و تمدن کو یا امن و امان کو یا مذہبی عقائد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی علمائے کرام نے ان پر ایسا کوئی الزام لگایا ہے۔ نا یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ ہے اور نہ اس کے لیے حل کی ضرورت ہے۔ اگر چھان بین کے دوران ایسی کتابیں یا مواد برامد ہو بھی جاتی ہیں تو اس کا سادہ حل یہ ہے کہ ان مواد کو ممنوع کیا جائے اور جو فائدہ مند ہے انہیں نوجوان نسلوں تک پہنچائی جائے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
لیکن نہیں بھوکے بھیڑیوں کے ہاتھ تو میمنہ لگا ہے۔ وہ اس معاملے کو ایسے کیسے ہاتھ سے جانے دے سکتے ہیں؟ ان کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی طرح فساد برپا ہو جائے اور ان کا نام ہو جائے. ان کے لیے پیغام ہے: یہ چترال ہے۔ اپ کے شطرنج کی بساط نہیں کہ مذہب اور قومیت کا چال چل کر مہریں لڑوائیں. یہ ایک پرامن ریاست ہے اور یہ اپ کا بھی ہے۔ اس کی ماضی اپ کے ابا و اجداد کی بھی ہے، اس کا حال اپ پر بھی منحصر ہے اور اس کا مستقبل اپ کے گھروں میں بھی پل رہے ہیں۔
مذہب اور قومیت دو حساس موضوع ہیں کیونکہ یہ دونوں انسان کے عقیدے اور عزت نفس سے جڑی ہوئی ہے۔ اس پہ بات کرنا گویا اگ سے کھیلنا ہے لیکن اب یہ ہمارے معاشرے کے کچھ عناصر کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ معاملہ کچھ بھی نہیں ہے لیکن اس کو اتنے رنگوں میں پیش کیا جا رہا ہے کہ سوچ کے بندے کا دل بند ہو جائے۔ اخر کب تک ؟ لیکشن بی بی اپ کے لیے علم کا تحفہ بھیجنا چاہتی تھی (پر اپ کو کھائیے اور کھاؤ تک کا فرق نہیں) حالانکہ اپ کو کتابوں سے زیادہ ائینے کی ضرورت ہے.
علمائے کرام اپ کے ایمان کی سلامتی کے لیے جانج پرتال کا کہہ رہے ہیں پراپ کو دیکھ کر سورۃ البقرہ کی ایات نمبر ۱۱-۱۲ یاد اتی ہیں حالانکہ ہونا سورۃ الانفال کے ابتدائی ایات چاہیے تھے. علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے چاہے یہ کچڑ میں پڑے کاغذ کے ٹکڑے سے ملے یا لیکشن بی بی کے بھیجے ہوئے کتابوں سے اور ایمان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا علماء کرام کا دینی اور اخلاق فرض ہے چاہے یہ اپ کو درست لگے یا نہ لگے۔ لہذا سورۃ بقرہ کی ایات نمبر۱۱-۱۲ پر کھڑے اترنے والوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ اپنے الفاظ کے چناؤ اور زبان کی نرمی کا خاص خیال رکھیں کہیں اپ کی وجہ سے کوئی بڑا نقصان نہ ہو اور پھر ذرا سوچیے۔۔۔۔ عقل نہیں ارہی تو کم از کم شرم ضرور انی چاہیے۔