
دھڑکنوں کی زبان – کشم یاترا (جی ایچ ایس کشم ) – محمد جاوید حیات
دھڑکنوں کی زبان – کشم یاترا (جی ایچ ایس کشم ) – محمد جاوید حیات
گاؤں کشم چترال کا مشہور گاؤں ہے یہاں کے سپوت چترال کےہیرے ہیں ۔۔جی ایچ ایس کشم چترال اپر کے معتبرتعلیمی اداروں میں شامل ہے ۔اس ادارے کا ایک ساکھ ہے ایک پہچان ہے یہاں پر ایک بار آنا ہوا تھا ۔جوتاثر لےکے گیا تھا اس نے میرے دل و دماغ میں اس کا ایک مقام بنا ڈالا تھا ۔پھر زندگی نے موقع فراہم کیا تھا ۔۔چترال سے ٹیکسی پکڑ کر جب روانہ ہوا تو کہیں خوابوں میں کھو گیا پہلا منظر ایک” ڈریم ادارے” کا تھا پھر خوابوں کی سہانی وادی میں داخل ہوگیا ایک ٹیلے کے اوپر واجبی سی عمارت ۔۔دوچار پورشنیں ۔۔ایک چھوٹا سا گراونڈ۔۔چند فٹ کا دفتر ۔۔۔
سامانوں سے لیس سائنس روم ۔میں مین گیٹ کے قریب جا کر لرزہ براندام ہوتا ہوں جسم پر کپکپی طاری ہوتی ہے ۔۔یہاں سے اندر داخل ہوجاؤں گا تو نظم و ضبط کی آگ مجھے بھسم کردے گی ۔۔کلاسیں لگی ہوئی ہوں گی ۔۔اساتذہ علم کی روشنی پھیلا رہے ہوں گے ۔کلاس فور اپنے کام میں جتے ہوۓ ہوں گے ۔ادارہ دلہن کی طرح سجا ہوا ہوگا ۔کلاسوں میں بچے علم کے پروانے ہوں گے ۔اپنے اساتذہ سے علم کے موتی چن رہے ہوں گے ۔۔ادارے کے اندر ایک ایک منٹ قیمتی ہوگا اس کا ثبوت وہ بچے ہیں جنہوں نےایک بار میٹرک کے امتحان میں پورے ملاکنڈ میں تیسرے نمبر پہ آۓ ایک بار ڈسٹرکٹ کو ٹاپ کیا ۔باقی ضلع میں ٹاپ ٹن میں ضرور جگہ بنا لیتے ہیں سکول کی اسمبلی مثالی ہوگی ۔ہیڈ ماسٹر اپنے اساتذہ کے ساتھ اسمبلی میں کھڑے ہوۓ ہوں گے پھران کا دفتر ہوگا ۔۔وقفے وقفے سے دفتر کی گھنٹی بجے گی ۔احکامات ہوں گے ۔۔سکول کا جنرل اوقات کار سٹاف روم کے سامنے رکھا ہوا ہوگا ۔یہ ادارہ گلشن انسانیت کے پھولوں اور علم کے چاند ستاروں سے سج رہا ہوگا ۔۔
سکولوں میں چھٹیاں تھیں ۔9 تاریخ کو سکول کھلنے تھے ۔8 تاریخ کو دسویں کا پہلا پرچہ تھا ۔۔دوپہر 3 بجے گیٹ کے سامنے ٹیکسی کھڑی کرکے ڈرائیور استاد کو منہ مانگی کرایہ ادا کیا گیٹ سے اندر داخل ہوا تو چند نوجوان کرکٹ کھیل رہے تھے۔سوچا ممتحن سمجھ کر دوڑ کے آئیں گے مگر ظالم ٹس سے مس نہ ہوۓ ۔۔التجا گزارش کی گئی کہ امتحانی عملہ تو کوئی نہیں آیا کوئی جواب نہ آیا کمرے چیک کرتے ہوۓ ایک کمرے میں پہنچے تو ایک ساتھی مل گیا ۔۔
جو پشاور بورڈ کا نمائندہ تھا۔۔سکول عمارت سے باہر آۓ تو سارا کشم آنکھوں کے سامنے تھا۔چھوٹے چھوٹے گاؤں، ناہمواراور دلدلی زمین ،پانی کی قلت ،روڈ تنگ ، زندگی قدرے مشکل ،سوچا باشندوں کی صلاحیتوں کے آگے زمین کی حیثیت کیا ہے ۔امتحان کا سارا عملہ آگیا ۔۔وہی روایتی عملہ ۔۔ہم نے خود امتحانی کمروں میں کرسی لگاۓ نشستیں درست کیں ۔۔عنایت جو ادارے میں اکیلا کلاس فور ہیں ہمارے ساتھ رہا ۔ امتحان کاکمان ابراہیم صاحب کے پاس تھا ہم بیچ میں بول نہیں سکتے تھے زیر لب بڑبڑاۓ ۔۔ایمان اور دیانت کے گیت گنگناۓ ۔جب میری غیر پارلیمانی حرکات ناقابل برداشت ہوۓ توکہا گیا۔۔۔ کہ کتنے لوگ تمہاری ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس سٹیشن سے اپنی ڈیوٹیاں منسوخ کیٸں ۔۔یہ وارنگ ہماری خاموشی کے لیے کافی تھی ۔مجھے سب سے زیادہ اس ہفت خوان سے ڈر لگتاتھا ۔جس کا مزہ امتحان کے دوران عملہ اڑاتا ہے ۔جب سے اس کو “دعوت” کا لبادہ پہنایا گیا ہے تو یہ گالی سے تعریف بن گیا ہے ۔رات بس کٹ سی گئی ۔صبح سہانی تھی ۔یار غار صابر شاہ صاحب آگئے ۔۔
جلال صاحب أگئے۔۔بچے آنے لگے رونق ساتھ آگئی ۔امتحانی ہال سج گئے ۔۔پیپر کھولے گئئ بچے سر جھکاۓ کام میں مصروف ہوگئے ۔ہائی سکول کشم کی فیکلٹی بے مثال ہے ۔سینیر تجربہ کار اساتذہ ،جونیئر اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ۔۔ابھی کلاسیں شروع نہیں ہوئیں ۔ابھی داخلے شروع نہیں ہوۓ ۔ابھی حکومت کی طرف سے کتابیں آٸی نہیں۔سکول میں ہمہ وقت آندھی چلتی ہے ۔اتنی زوردار کہ چھت کی ٹینیں اکھاڑ دے ۔ناشپانی کا ایک درخت جھڑ سے ٹیڑھا ہوگیا تھا ۔میں روز اس کے پاس جا بیٹھتا ۔عنایت سے التجا کرتا کہ اس کو ٹیک لگا کے سیدھا کرو ۔لیکن شاید اس کے اور بہت سارے کام تھے یہ درخت کسی کو نظر نہ آیا ۔۔۔شاید ذوق نظر ایسا نہ ہو ۔سکول کا منظر جنت نظیر تھا ۔۔۔
صبح قریبی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ۔۔کشم حفاظ کی سر زمین ہے ۔پھر سیر پہ نکلتے۔سورج کی کرنیں واپسی پر استقبال کرتیں ۔۔پہلے تریچمیرکی چوٹی سنہری ہوتی پھر آگے کرنوں کے نقری رنگ پہاڑ کی چوٹیوں کو مطلا کر دیتے ۔۔سکول کے ساتھ ٹیلے پہ بیٹھ کر نیچر کو پڑھتا رہتا ۔۔ Mother nature کو۔۔۔بہت نیچے دریا بہہ رہا ہوتا ۔۔دریا پارلق ودق قاقلشٹ دیکھائی دیتا ۔مغربی سمت موڑکھو اور تریچمیر دیکھائی دیتے ۔۔کشم ریشت کا دشوار گزار راستہ نظروں کے سامنے ہوتا پھر روز شگوفہ سے پوچھنا پڑتا۔۔۔۔ شگوفے بیٹا ! راستے کا کیا حال ہے ؟ سر ! بند ہے گاڑی بدلنا پڑتا ہے ۔۔کشم کی ساری ٹریفک بونی کی طرف ہے موڑکھو کا راستہ تقریبا بند ہے ۔۔ناشتے میں کڑک چاۓ اور روایتی “خستہ شاپک” دسترخوان پہ ہوتے . . .
عنایت کو بس کام نمٹانا ہوتا ۔۔۔ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی ناشتے کی نوید آتی کہ تیار ہے ناشتے کے بعد ہم پھر بستروں میں گھس جاتے ہیں ۔تب جاگتے۔ جب بچوں کی چیخ چاخ شروع ہوتی ۔ میں خود اسمبلی میں کھڑا ہوتا ۔۔ کشن مارتا ۔۔ بچے بڑے جوش سے پاوں زمین پہ مارتے ۔۔۔پاک سر زمین شاد باد ۔۔۔۔کشم میں اساتذہ کی فکلٹی پورا ہے اور سٹار اساتذہ موجود ہیں ۔محنتی اور ذمہ دار ہیں ۔شریف اور محترم ہیں ۔۔ہمارا اتنا احترام کیا کہ ہم ان کی شرافت کے مقروض ہو گئے ۔۔۔
پرنسپل نوجوان با صلاحیت ہیں ۔کلاس فور پوسٹیں خالی ہیں ۔بچے ذہین ہیں ان کی مذید رہنمائی کی ضرورت ہے ۔جی چاہتا ہے کہ استاذ کلاسوں میں جان کھپاۓ اپنی پوری انرجی بچوں کی تعلیم و تربیت میں لگائیں ۔۔کام اس وقت کام ہے جب بندہ کام کرتے ہوۓ تھک جاۓ پسینے میں شرابور ہوجاۓ۔۔فخر موجودات ص نے کام کا معیار یہی فرمایا ہے ۔۔۔کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو ۔۔۔اب کیا گورنمنٹ کا استاذ کلاس روم میں پڑھاتے پڑھاتے پسینے میں ڈوب جاتا ہے کیا اس کی محنت کا معیار یہ ہے ۔۔یہ خود احتسابی کا جذبہ ہے جو انسان کو زندہ رکھتا ہے ۔
زندگی گزارنے کی چیز نہیں فائیٹ کرنے کی چیز ہے ۔۔ہائی سکول کشم میں ہر طرف صلاحیتوں کی خوشبو ہے اس خشک ٹیلے کے اوپر یہ ادارہ علم کا مینارہ نور ہے۔میں خواب بنتا ہوں ۔۔۔میں معیار ڈھونڈھتا ہوں ۔۔میں یہاں چند دن جی لوں گا ۔۔میں نے شگوفہ سے کہا ۔۔۔ہم یہاں سے چلے جائیں گے لیکن میرے خواب ۔۔۔۔۔انہوں نے کہا سر ! خواب خواب ہی رہیں تو بہتر ہے جس معیار کا تم خواب دیکھ رہے ہو ۔۔۔یہ خواب ہی تو ہے ۔۔۔پھر یکدم ان کی انکھوں میں خوفناک سنجیدگی اتر آتی ہے ۔مجھے ایسا مخاطب کرتی ہے جیسے کوئی بہادر جنرل میدان جنگ میں اپنے کمزور سپاہی کو مخاطب کرتا ہے ۔۔میری آنکھوں میں جھانک کر کہتی ہے۔۔۔
میارا بزم بر ساحل کہ انجا
نواۓ زندگانی نرم خیز است۔۔ بہ دریا غلط بہ موجش دراویز
حیات جاویدان اندر ستیز است
میں لرزہ براندام ہوتا ہوں۔۔۔گزرے 22 لمبے لمبے دن دھند میں کہیں غائب ہوتے ہیں اور خوابوں کا پلندہ سر پہ رکھےمیں اسی گیٹ سے باہر آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔