دوستوں کی جدائی کا غم…..تحریر :محمد نفیس دانش
کچھ لوگ زندگی سے اتنے بھرپور ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ موت کا تصور کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔مولانا عبد الرؤف اور مولانا مدثر جاوید صاحب بھی ایسے ہی تھے۔زمانہ طالب علمی کے میرے بہت ہی اچھے، مخلص اور قریبی دوستوں میں سے تھے،یہ دونوں دراز قد، خوش گفتار اور ذہین انسان تھے۔میری ان سے ملاقات اس وقت ہوئی تھی، جب میں اپنی رسمی تعلیم کی منزلیں جامعہ نعمانیہ گوجرانوالہ اور جامعہ دارالعلوم کراچی میں طے کر رہا تھا، ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے، یہ حضرات بہت پروقار انداز میں سب کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ہمیشہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے رکھتے اور اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ بھائی عبد الرؤف صاحب کی مادری زبان فارسی تھی لیکن عربی زبان بھی بہت مہارت سے بول لیتے تھے جامعہ دارالعلوم کراچی کے سالانہ تقریری مقابلہ میں اکثر یہ پوزیشن حاصل کرتے تھے اور ہم تھے کہ ان کی اکثر کامیابیوں پر ان سے منہ میٹھا کرنے کی پیشکشیں کر کے ہر بار دعوت کھاتے رہتے تھے اور وہ ہر کامیابی کو والدین اور دوستوں کی دعاؤں کا ثمرہ ہی سمجھتے تھے اور ہم مزاحا کہتے کہ بھائی جان حقیقت بھی یہی ہے۔
رسمی تعلیم کے مراحل اللہ کے فضل و کرم سے مکمل ہوتے ہیں اور سب دوست ایک دوسرے کو الوداع کہتے ہوئے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں خصوصاً جب ہم اپنی مادر علمی جامعہ دارالعلوم کراچی سے رخصت ہونے لگے تو جدائی کی اس گھڑی میں ہم سب کی روح بے چین ، دل کشیدہ، چہرے غم زدہ، جبیں افسردہ اور آنکھیں نمدیدہ تھیں ۔ تمام ساتھی دو ملی و جلی متضاد کیفیتوں میں کشمکش نظر آرہے تھے ، خیال فراق میں غم کی تصویر بنے ہوئے تھے ، درد و فرقت سے تڑپ رہے تھے ، احساس جدائی سے مضطرب و بے چین تھے،کسک فراق سے نالاں وپریشان تھے ، ایک دوسرے کو رخصت تو کر رہے تھے، الوداع الوداع کہہ کر لیکن اپنی تقدیر پر شکوہ کناں تھے کہ آج ہم سے یہ مادر علمی چھوٹ رہا ہے، ہم اپنے اساتذہ کی شفقتوں اور عنایتوں سے محروم ہورہے ہیں ، بزم احباب سے ہمیشہ کے لیے جدا ہورہے ہیں، اب ہم اس طرح کبھی جمع نہیں ہوسکیں گے۔
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
دوستوں کی موت کا صدمہ تحریر :محمد نفیس دانش
کچھ لوگ زندگی سے اتنے بھرپور ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ موت کا تصور کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔مولانا عبد الرؤف اور مولانا مدثر جاوید صاحب بھی ایسے ہی تھے۔ یہ دونوں دوست میرے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے، یہ دونوں دراز قد، خوش گفتار اور ذہین انسان تھے۔میری ان سے ملاقات اس وقت ہوئی تھی، جب میں اپنی رسمی تعلیم کی منزلیں جامعہ نعمانیہ گوجرانوالہ اور جامعہ دارالعلوم کراچی میں طے کر رہا تھا، ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے، یہ حضرات بہت پروقار انداز میں سب کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ہمیشہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے رکھتے اور اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ بھائی عبد الرؤف صاحب کی مادری زبان فارسی تھی لیکن عربی زبان بھی بہت مہارت سے بول لیتے تھے جامعہ دارالعلوم کراچی کے سالانہ تقریری مقابلہ میں اکثر یہ پوزیشن حاصل کرتے تھے اور ہم تھے کہ ان کی اکثر کامیابیوں پر ان سے منہ میٹھا کرنے کی پیشکشیں کر کے ہر بار دعوت کھاتے رہتے تھے اور وہ ہر کامیابی کو والدین اور دوستوں کی دعاؤں کا ثمرہ ہی سمجھتے تھے اور ہم مزاحا کہتے کہ بھائی جان حقیقت بھی یہی ہے۔
رسمی تعلیم کے مراحل اللہ کے فضل و کرم سے مکمل ہوتے ہیں اور سب دوست ایک دوسرے کو الوداع کہتے ہوئے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں خصوصاً جب ہم اپنی مادر علمی جامعہ دارالعلوم کراچی سے رخصت ہونے لگے تو جدائی کی اس گھڑی میں ہم سب کی روح بے چین ، دل کشیدہ، چہرے غم زدہ، جبیں افسردہ اور آنکھیں نمدیدہ تھیں ۔ تمام ساتھی دو ملی و جلی متضاد کیفیتوں میں کشمکش نظر آرہے تھے ، خیال فراق میں غم کی تصویر بنے ہوئے تھے ، درد و فرقت سے تڑپ رہے تھے ، احساس جدائی سے مضطرب و بے چین تھے،کسک فراق سے نالاں وپریشان تھے ، ایک دوسرے کو رخصت تو کر رہے تھے، الوداع الوداع کہہ کر لیکن اپنی تقدیر پر شکوہ کناں تھے کہ آج ہم سے یہ مادر علمی چھوٹ رہا ہے، ہم اپنے اساتذہ کی شفقتوں اور عنایتوں سے محروم ہورہے ہیں ، بزم احباب سے ہمیشہ کے لیے جدا ہورہے ہیں، اب ہم اس طرح کبھی جمع نہیں ہوسکیں گے۔اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہےلیکن کسی کو کیا علم تھا کہ یہ دونوں دوست ہم کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیں گے، دونوں دوستوں کا چند دنوں کے وقفے سے ٹریفک حادثے میں انتقال ہو جاتا ہے اور یوں اتنی جلدی ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ کر رخصت ہو جاتے ہیں ۔جواں سالی میں ان کی موت نے علماء کرام کی برادری کو شدید صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔
کسی کو یقین نہیں آ رہا۔ کوئی ان سے کل پرسوں فون پر ملنے کو یاد کر رہا ہے تو کوئی ہفتہ قبل ہونے والی ملاقات کا ذکر کر رہا ہے۔اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں کسی کی موت کے غم سے گزرنا زندگی کا حصہ ہے۔ یہ ایک عجیب، دردناک اور تکلیف دہ مرحلہ ہے، لیکن ہم عموماً زیادہ دکھی تب ہوتے ہیں جب کسی ایسے شخص کو کھو دیں جسے ہم کچھ عرصے سے جانتے ہوں۔کسی قریبی شخص کے انتقال کے فوراً بعد زیادہ تر لوگ پہلے کچھ گھنٹوں اور دنوں تک شدید بے یقینی کا شکار ہوجاتے ہیں ،انہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ ایسا ہو چکا ہے۔بہت دفعہ مرنے والے کی نعش کو دیکھنے سے انسان کو اس بات کا یقین آنا شروع ہوتا ہے کہ ایسا واقعی میں ہو چکا ہے۔اسی طرح تہجیزو تکفین کی رسومات سے گزرنے سے انسان کو اس تکلیف دہ حقیقت پہ یقین آنا شروع ہوتا ہے۔بہت سے لوگوں کے لیے اپنی قریبی عزیز کی نعش کو دیکھنا یا اس کے جنازے میں شریک ہونا بڑے تکلیف دہ مراحل ہوتے ہیں جس کی شدت کو سہنا آسان نہیں ہوتا لیکن یہ اپنی محبوب ہستیوں کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کا طریقہ ہوتا ہے۔جلد ہی یہ بے یقینی جھنجھلا ہٹ اور بے بسی میں بدل جاتی ہے جس میں انسان اس بچھڑے ہوئے شخص کو ڈھونڈنے اور اس سے دوبارہ ملنے کے لیے تڑپنے لگتا ہے حالانکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ یہ نا ممکن ہے۔ اس حالت میں انسان بے سکون رہتا ہے، روز مرہ کی باتوں پہ توجہ نہیں دے پاتا اور اس کی نیند بھی متاثر ہوتی ہے ۔
بعض لوگوں کو پریشان کن خواب بھی آتے ہیں۔ ان مراحل میں کچھ لوگ ایسا بھی محسوس کرتے ہیں جیسے انہیں مرنے والا شخص ہر جگہ نظر آتا ہو، خصوصاً ان جگہوں پارک، سڑک، گھر پر جہاں انہوں نے اسکے ساتھ زیادہ وقت گزارا ہو۔ بہت سے لوگ ایسے میں بہت زیادہ غصہ بھی محسوس کرتے ہیں، ان ڈاکٹروں یا نرسوں پر جو ان کے جانے والے کو بچا نہیں سکے، ان رشتہ داروں اور دوستوں پر جنھوں نے ان کے خیال میں اتنا نہیں کیا جتنا کرنا چاہیے تھا اور یہاں تک کہ مرنے والے شخص پر بھی کہ وہ انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔بہت سے لوگ اپنے آپ کو مجر م سمجھنے لگتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں کہ وہ مزید کیا کہہ سکتے تھے اور کر سکتے تھے۔ اکثر لوگ بعد میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ شاید اگر وہ کچھ اور کرسکتے تو ان کا عزیز بچ جاتا۔ موت کسی کے اختیار میں نہیں اور بعض دفعہ پیچھے رہ جانے والوں کو بار بار یہ بات یاد دلانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔اگر کسی کا انتقال کسی بہت تکلیف دہ اور طویل مرض کے بعد ہوا ہو تو بعض دفعہ قریبی عزیز انتقال کے بعد ایک اطمینان کی سی کیفیت محسوس کرتے ہیں کہ مریض کی جان اس تکلیف سے چھٹ گئ، جس کے لیے پھر وہ شرمندہ ہوتے ہیں۔ یہ احساس طبعی ہے، بہت سے لوگوں کو ہوتا ہے اور اس کے لیے ندامت محسوس کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔جھنجھلاہٹ، بے چینی اور غصے کی یہ کیفیت انتقال کےتقریباً دو ہفتے بعد سب سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ اس کے بعد اداسی، خاموشی اور لوگوں سے الگ تھلگ رہنے کی کیفیت حاوی ہو جاتی ہے۔ جذبات میں اتنی تبدیلی بعض اوقات دوستوں اور رشتہ داروں کو عجیب سی محسوس ہوتی ہے مگر یہ سب ایک قدرتی عمل ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ موت کا غم اور دکھ کم ہوتا جا تا ہے، اداسی کم ہونے لگتی ہے اور انسان دوسری چیزوں کے بارے میں اور آئندہ کے بارے میں سوچنے لگتا ہے ۔ لیکن پھر بھی کسی کے کھو جانے کا احساس مکمل طور پہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ شوہر بیوی میں سے کسی ایک کے انتقال کے بعد دوسرے کو اپنے اکیلے پن کا بہت زیادہ احساس ہونے لگتا ہے۔ یہ احساس مزید شدت اختیار کر لیتا ہے جب وہ دوسرے جوڑوں کو ہنسی خوشی ایک ساتھ دیکھتے ہیں۔
وقت کے ساتھ انہیں یو ں بھی محسوس ہونے لگتا ہے جیسے وہ شخص انکے ساتھ ہی ہے اس لئے کبھی وہ اسے محسوس کرتے ہیں اور کبھی اس سے باتیں بھی کرتے ہیں۔جو کسی قریبی عزیز کے انتقال کے صدمے سے گزر رہا ہو اس کے ساتھ وقت گزارنے سے رشتہ دار اور دوست بہت سہارا دے سکتے ہیں۔اس کو تسلی دینا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ ان کے ساتھ کچھ دیر رہنے سے ہی ان کو بہت تسلی ملتی ہے۔بنیادی طور پر غم کے ان تمام مراحل سے گزرنا بہت ضروری ہوتا ہے چاہے کتنا ہی وقت لگے۔ بعض لوگ ان سے جلد گزر جاتے ہیں اور بعض زیادہ وقت لیتے ہیں۔ اس لیے لوگوں پہ دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کہ وہ جلدی سے نارمل زندگی میں آ جائیں۔ یہ سب آگے کی بہت سی مشکلات کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے۔لیکن کسی کو کیا علم تھا کہ یہ دونوں دوست ہم کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیں گے، دونوں دوستوں کا چند دنوں کے وقفے سے ٹریفک حادثے میں انتقال ہو جاتا ہے اور یوں اتنی جلدی ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ کر رخصت ہو جاتے ہیں ۔جواں سالی میں ان کی موت نے علماء کرام کی برادری کو شدید صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ کسی کو یقین نہیں آ رہا۔ کوئی ان سے کل پرسوں فون پر ملنے کو یاد کر رہا ہے تو کوئی ہفتہ قبل ہونے والی ملاقات کا ذکر کر رہا ہے۔ کسی کی موت کے غم سے گزرنا زندگی کا حصہ ہے۔
یہ ایک عجیب، دردناک اور تکلیف دہ مرحلہ ہے، لیکن ہم عموماً زیادہ دکھی تب ہوتے ہیں جب کسی ایسے شخص کو کھو دیں جسے ہم کچھ عرصے سے جانتے ہوں۔کسی قریبی شخص کے انتقال کے فوراً بعد زیادہ تر لوگ پہلے کچھ گھنٹوں اور دنوں تک شدید بے یقینی کا شکار ہوجاتے ہیں ،انہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ ایسا ہو چکا ہے۔بہت دفعہ مرنے والے کی نعش کو دیکھنے سے انسان کو اس بات کا یقین آنا شروع ہوتا ہے کہ ایسا واقعی میں ہو چکا ہے۔اسی طرح تہجیزو تکفین کی رسومات سے گزرنے سے انسان کو اس تکلیف دہ حقیقت پہ یقین آنا شروع ہوتا ہے۔بہت سے لوگوں کے لیے اپنی قریبی عزیز کی نعش کو دیکھنا یا اس کے جنازے میں شریک ہونا بڑے تکلیف دہ مراحل ہوتے ہیں جس کی شدت کو سہنا آسان نہیں ہوتا لیکن یہ اپنی محبوب ہستیوں کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کا طریقہ ہوتا ہے۔جلد ہی یہ بے یقینی جھنجھلا ہٹ اور بے بسی میں بدل جاتی ہے جس میں انسان اس بچھڑے ہوئے شخص کو ڈھونڈنے اور اس سے دوبارہ ملنے کے لیے تڑپنے لگتا ہے حالانکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ یہ نا ممکن ہے۔ اس حالت میں انسان بے سکون رہتا ہے، روز مرہ کی باتوں پہ توجہ نہیں دے پاتا اور اس کی نیند بھی متاثر ہوتی ہے ۔ بعض لوگوں کو پریشان کن خواب بھی آتے ہیں۔ ان مراحل میں کچھ لوگ ایسا بھی محسوس کرتے ہیں جیسے انہیں مرنے والا شخص ہر جگہ نظر آتا ہو، خصوصاً ان جگہوں (پارک، سڑک، گھر) پر جہاں انہوں نے اسکے ساتھ زیادہ وقت گزارا ہو۔
بہت سے لوگ ایسے میں بہت زیادہ غصہ بھی محسوس کرتے ہیں، ان ڈاکٹروں یا نرسوں پر جو ان کے جانے والے کو بچا نہیں سکے، ان رشتہ داروں اور دوستوں پر جنھوں نے ان کے خیال میں اتنا نہیں کیا جتنا کرنا چاہیے تھا اور یہاں تک کہ مرنے والے شخص پر بھی کہ وہ انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔بہت سے لوگ اپنے آپ کو مجر م سمجھنے لگتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں کہ وہ مزید کیا کہہ سکتے تھے اور کر سکتے تھے۔ اکثر لوگ بعد میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ شاید اگر وہ کچھ اور کرسکتے تو ان کا عزیز بچ جاتا۔ موت کسی کے اختیار میں نہیں اور بعض دفعہ پیچھے رہ جانے والوں کو بار بار یہ بات یاد دلانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔اگر کسی کا انتقال کسی بہت تکلیف دہ اور طویل مرض کے بعد ہوا ہو تو بعض دفعہ قریبی عزیز انتقال کے بعد ایک اطمینان کی سی کیفیت محسوس کرتے ہیں کہ مریض کی جان اس تکلیف سے چھٹ گئ، جس کے لیے پھر وہ شرمندہ ہوتے ہیں۔
یہ احساس طبعی ہے، بہت سے لوگوں کو ہوتا ہے اور اس کے لیے ندامت محسوس کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔جھنجھلاہٹ، بے چینی اور غصے کی یہ کیفیت انتقال کےتقریباً دو ہفتے بعد سب سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ اس کے بعد اداسی، خاموشی اور لوگوں سے الگ تھلگ رہنے کی کیفیت حاوی ہو جاتی ہے۔ جذبات میں اتنی تبدیلی بعض اوقات دوستوں اور رشتہ داروں کو عجیب سی محسوس ہوتی ہے مگر یہ سب ایک قدرتی عمل ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ موت کا غم اور دکھ کم ہوتا جا تا ہے، اداسی کم ہونے لگتی ہے اور انسان دوسری چیزوں کے بارے میں اور آئندہ کے بارے میں سوچنے لگتا ہے ۔ لیکن پھر بھی کسی کے کھو جانے کا احساس مکمل طور پہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ شوہر بیوی میں سے کسی ایک کے انتقال کے بعد دوسرے کو اپنے اکیلے پن کا بہت زیادہ احساس ہونے لگتا ہے۔ یہ احساس مزید شدت اختیار کر لیتا ہے جب وہ دوسرے جوڑوں کو ہنسی خوشی ایک ساتھ دیکھتے ہیں۔ وقت کے ساتھ انہیں یوں بھی محسوس ہونے لگتا ہے جیسے وہ شخص انکے ساتھ ہی ہے اس لئے کبھی وہ اسے محسوس کرتے ہیں اور کبھی اس سے باتیں بھی کرتے ہیں۔جو کسی قریبی عزیز کے انتقال کے صدمے سے گزر رہا ہو اس کے ساتھ وقت گزارنے سے رشتہ دار اور دوست بہت سہارا دے سکتے ہیں۔اس کو تسلی دینا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ ان کے ساتھ کچھ دیر رہنے سے ہی ان کو بہت تسلی ملتی ہے۔موت کا بھی علاج ہو شاید زندگی کا کوئی علاج نہیں