Chitral Times

Apr 25, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ۔ کلا م اقبال میں مسلم سپین ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

شیئر کریں:

داد بیداد ۔ کلا م اقبال میں مسلم سپین ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

 

علا مہ اقبال نے یورپ کا پہلا سفر 1905ء میں کیا انہوں نے انگلینڈ اور جر منی مین فلسفہ کی اعلیٰ تعلیم حا صل کی اس کے بعد1933ء میں یورپ کے دورے پر تشریف لے گئے تو مسلم سپین کی تاریخ کا چشم دید جائزہ لینے کے لئے سپین کے دو صو بوں غر نا طہ اور قر طبہ کا خصو صی دورہ کیا آپ کے فارسی اور اردو کلا م میں اس دورے کے تاثرات نظر آتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے دلوں کو گرما تے ہیں قر طبہ میں بنو امیہ کی خلا فت 755عیسوی سے1258ء تک رہی غر نا طہ میں اسلا می حکومت 711عیسوی سے 1492ء تک رہی قر طبہ کا حکمران خلیفہ کہلا تا تھا

 

غر نا طہ کے حکمران کو سلطان کہتے تھے، عر بوں کی تاریخ میں مسلم سپین کو ہسپا نیہ اور اندلس کہا جا تا ہے، علا مہ اقبال نے بھی یہی دو نام بار بار استعمال کئے مسلمان خلفاء اور سلا طین میں خلیفہ عبد الرحمن اول کو علا مہ اقبال کی پسند یدہ شخصیت کا در جہ حا صل ہے، ان کی بہا دری، اولوالعزمی اور علم دوستی میں علا مہ اقبال کے فلسفہ خودی اور مثا لی انسا ن مر د مو من کی صفات عالیہ کی جھلک ملتی ہے مسلم سپین کی تاریخ اور سما ج میں علا مہ اقبال کی دلچسپی کے تین پہلو تھے وہ بچشم خود دیکھنا چاہتے تھے کہ عرب میں مسلمانوں کی عظیم طاقت یعنی خلا فت بنو امیہ نے کس طرح مشرق میں سندھ اور ماروراء النہر تک فتو ھات کے جھنڈے گاڑے اور کس شان سے امو یوں نے مغرب میں مرا کش سے سپین تک اپنی طا قت کی دھا ک بٹھا دی

 

یہ غا زی یہ تیرے پر اسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدا ئی دو نیم ان کی ٹھو کر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہمت سے رائی دوسرے بات یہ تھی کہ علا مہ اقبال یو رپ میں مسلمانوں کے ذوق جما لیا ت اور فنون لطیفہ میں ان کے کما لات کا مشا ہد ہ کرنا چاہتے تھے، تیسری بات یہ تھی کہ آٹھویں صدی سے پندرھویں صدی تک یو رپ کی تاریخ کو تاریک دور (Dark age) کہا جا تا ہے اس دور میں بنو امیہ نے علوم و فنون میں جو ترقی کی تھی، اس کا مشا ہدہ کر کے علم و ادب کے مو تیوں کو چُننا چاہتے تھے بال جبریل میں مسلم سپین کے حوالے سے جو نظمیں آئی ہیں وہ شاعر کے خیا لات و جذبات کی عکا سی کر تی ہیں طارق کی دعا اس شعر پر ختم ہوتی ہے عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے نگا ہ مسلمان کو تلوار کر دے ایک اور نظم ہے جس کا تعلق قرطبہ کی ریا ست کے زوال اور خلیفہ کی شکست کے بعد پا یہ زنجیر ہو کر زند ان کے حوالے ہونے سے ہے

 

آخری خلیفہ معتمد شاعر بھی تھا عالم بھی، ان کی عر بی نظمیں انگریزی میں تر جمہ ہو کر ”وز ڈم آف دی ایسٹ“ میں شائع ہو چکی تھیں ایک شعر کو اردو کے قالب میں ڈھا ل کر الفاظ کا جا مہ یوں پہنا یا ہے جو میری تیغ دو دم تھی اب میری زنجیر ہے شوخ و بے پروا ہے کتنا خا لق تقدیر بھی ایک شہرہ آفاق نظم وہ ہے جو خلیفہ عبد الرحمن اول کے اشعار کا آزاد تر جمہ ہے یہ اشعار انہوں نے اندلس میں کھجور کا پہلا درخت لگا تے ہوئے کہے تھے کھجو ر کے اس درخت کو مخا طب کر کے شاعر کہتا ہے مغرب کی ہوا نے تجھ کو پا لا صحرا ئے عرب کی حور ہے تو پردیس میں نا صبور ہوں میں پردیس میں نا صبور ہے تو دورہ ہسپا نیہ کے حوالے سے علا مہ اقبال کی جو شہکار نظم سب سے زیا دہ مشہور ہوئی اس کا عنواں ہے ”مسجد قر طبہ“ 65اشعار پر مشتمل یہ نظم مسلما نوں کے درخشان ما ضی کی یا د دلا نے کے ساتھ زندگی اور موت، عروج اور زوال کے رازوں سے بھی پر دہ اٹھا تی ہے شاعر کہتا ہے سلسلہ روز شب نقش گر حا دثات سلسلہ روز شب اصل حیات و ممات، صورت شمشیر ہے

 

دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب کلا م اقبال میں مسلم سپین کے ما ضی اور حال کی جو جھلک ملتی ہے اس میں غر نا طہ کے الحمرا محل کی عظمت، مسجد قرطبہ کی شان و شو کت، مدینہ الزہرا کے محلات اور باغا ت کی قدامت قاری کو مسحور کر دیتی ہیں مسجد قر طبہ کو چرچ بنا نے کے بعد اس میں کسی مسلمان کو نما ز کی اجا زت نہ ملی،

 

یہ بات علا مہ اقبال کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے چرچ کے بڑے پا دری سے کہا کہ عیسائی پا دریوں کا وفد جب ہمارے نبی کریم ﷺ سے ملنے مسجد نبوی مدینہ منورہ آیا تو ہمارے پیغمبر نے ان کو مسجد کے اندر عبادت کی غیر مشروط اجا زت دے دی آپ مجھے دو رکعت نما ز کی اجا زت کیوں نہیں دیتے؟ کون ساخوف ہے جو آپ کو روکتا ہے؟ اس پر پا دری نے علا مہ اقبال کو نما ز پڑھنے کی اجا زت دیدی، علا مہ اقبال نے مسلم سپین کا جو دورہ کیا وہ ہر لحا ظ سے تاریخ میں امر ہو گیا ہسپا نیہ کو الوداع کہتے ہوئے آپ نے کہا ؎
ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امین ہے
ما نند حر م پا ک ہے تو میر ی نظر میں
پو شیدہ تیری خا ک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تیری باد سحر میں

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
100376