Chitral Times

May 12, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ۔ علا مہ غفران کی تصنیفات ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

داد بیداد ۔ علا مہ غفران کی تصنیفات ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

شہرت یا فتہ ادیب اور شاعر سید انشا اللہ خان انشاؔ کے بارے میں ان کے ایک ہم عصر کا ایک مقولہ مشہور ہے انہوں نے کہا تھا کہ ”سید انشا اللہ خان انشاؔ کی نثر نگا ری کو ان کی شاعری نے ڈھانپ لیا اور ان کی شاعری کو نواب سعادت حسین خان کے دربار نے نگل لیا“ یہ بات لکھنو سے سینکڑوں میل دور ہندو کش کی پہا ڑی وادیوں کے باسی علا مہ غفران پر بھی صادق آتی ہے ان کے تبحرعلمی کو دفتری ملا زمت نے سر اٹھا نے نہ دیا اور دفتری ملا زمت کی عزت کو تاریخ چترال نے ہڑ پ کر لیا گھر سے تعلیم کے حصول کے لئے رخصت کر تے وقت ان کے باپ مولوی غلا م رسول نے مختصر نصیحت کی تھی کہ ”لکھنے کا فن خوب سیکھو اور قلم ہاتھ میں لیکر وطن واپس آؤ“ لکھنے کا فن، ہاتھ میں قلم اور وطن واپسی کے تین نکا ت نے علا مہ کی شخصیت پر گہرے نقوش ثبت کئے قلم ہاتھ میں لیکر اگر وطن واپس نہ آتے تو ہندو ستان کے جید علما کی صف میں جگہ پاتے.

 

 

چترال آنے کے بعد ریا ستی حکمران امان الملک نے ان کو گھر سے بلا کر دفتر کا ذمہ دار مقر رکیا کام میں جی نہیں لگا تو واپس ہندوستان چلے گئے مگر جلد ہی شہزا دہ عبد الکریم خان قوقندی کے ذریعے آپ کو واپس بلا یا گیا شاہین مائل پرواز تھا مگر اُس کے پر کاٹ دیے گئے فنون اور فقہ پر آپ کو عبور حا صل تھا عر بی اور فارسی کا ادب عالیہ آپ نے ذوق و شوق کے ساتھ نا مور اساتذہ سے پڑھا تھا دورہ اول اور دورہ آخر میں آپ کو تفسیر اور اصول فقہ میں تخصص کا شوق پیدا ہوا فن کتا بت میں خط نستعلیق، خط نسخ اور خط بہار میں بھی آپ نے کا مل دسترس بہم پہنچائی تھی روز نامچہ یادداشت میں ا پنے بیٹوں کا ذکر بھی اس طرح کر تا ہے غلام مصطفی انگریزی، عر بی، فارسی اور اردو کا ما ہر ہے بہت خو ش خط ہے، غلا م مر تضیٰ فارسی اور عر بی کا ما ہر ہے کتابت کے فن سے آشنا ہے، غلا م جعفر نے فارسی، اردو اور انگریزی کے ساتھ خو ش خطی کی تر بیت حا صل کی ہے، عموماً ایسا ہوتا ہے کہ روزانہ پچاس ساٹھ صفحے لکھنے والا خو ش خط نہیں ہوتا لیکن علا مہ غفران روزانہ ہزار بارہ سو صفحے لکھتا تھا اور کامل خو ش خطی میں لکھتا تھا

 

 

ان کی اہم ترین کتاب حواشی فقہ اکبر خط کتا بت کا اعلیٰ نمو نہ ہے اور خط نسخ میں ہے فقہ اکبر مشہور محدث ملا علی قاری کی تصنیف ہے اس پر علامہ غفران نے حا شیہ لکھ کر مشکل مقا مات کی تشریح کی اور حنفی فقہ کو مُر جیہ کے مقا بلے میں بر حق ثا بت کیا ہے حوا شی کے ضمن میں مولانا عرفان الدین سوات مولانا عبد الدیان نو شہرہ اور قاضی عبد الرحمن چترال کی مختصر تصریحات کا بھی حوالہ دیا ہے دینی مدارس کے اسا تذہ اور طلبہ کے لئے بیحد مفید کتاب ہے اور عر بی میں ہے علا مہ غفران کی دوسری اہم تصنیف کا نا م تشریح لا قاویل ہے یہ بھی عر بی میں ہے اس کے اندر علم تفسیر کے چار مبا حث ذو القر نین، اصحا ب کہف، یا جو ج، ما جو ج اور سدّ سکندری پر تحقیق کا ما حصل آیا ہے ان مو ضو عات پر ہندو ستان کے مشہور علما عبد الحق محدث دہلوی اور سید عبد الد ہر کے علا وہ سر سید احمد خان نے بھی قلم اتھا یا تھا

 

علا مہ غفران نے تینوں کا عمیق مطا لعہ کرنے کے بعد اپنی تحقیق کے مطا بق مولانا سید عبد الدہر کی رائے سے قدرے مطا بقت پیدا کرکے ایک معتبر حوالے کی کتاب تصنیف کی ہے مگر اب تک یہ تصنیف منظر عام پر نہیں آئی علا مہ غفران کی تیسری اہم تصنیف اصول و فروع کے مو ضو ع پر ہے یہ یہ کتاب فار سی میں ہے اس کا نا م کشف الحجا ب ہے، اس میں بیسویں صدی کے علمی مبا حث میں با طنی عقا ئد کے ما لہ، و ما علیہ کا بیان آیا ہے اس مو ضوع پر امام غزا لی ؒ، ابن تیمیہ ؒ کے رسائل کا ذکر بھی آتا ہے خوا جہ حسن نظامی نے بھی اس پر کام کیا تھا علا مہ غفران کو اس مو ضو ع پر لکھنے کی تحریک خو اجہ حسن نظا می کی تحریروں سے ملی فارسی میں آپ نے خلفا ئے راشدین کی تاریخ شرط و بسط کے ساتھ لکھی ہے خو اجہ حسن نظا می ؒ نے اس تنصنیف کو مولانا شبلی ؒ کے الما مون کا ہم پلہ قرار دیا تھا آپ کی پا نچویں تصنیف بھی فارسی میں ہے

 

 

یہ مولانا حسین واعظ کشفی کی مشہور افسانوی کتاب کلیلہ و دِمنہ کی منتخب کہا نیوں کا فارسی تر جمہ ہے، اس طرح فارسی میں علا مہ غفران کا سفر نا مہ ہندوستان بھی ایک دلچسپ تصنیف ہے، اس میں 1899ء کے سفر ہند کا تفصیلی احوال ادبی اسلو ب میں لکھا گیا تھا اس دورے میں آپ چترال کے ریا ستی حکمران شجا ع الملک کے ہمر کاب تھے جنہیں لا رڈ کرزن وائسرائے ہند نے سر کاری دورے پر بلا یا تھا ہند وستان کے را جوں، مہا را جو ں اور نوا بوں کے علا وہ نا مور علماء شعراء اور صحا فیوں سے ملا قاتوں کا ذکر ہے تاریخی مقا مات کی سیر کا دلچسپ بیان ہے ان میں سے اکثر لو گ علا مہ غفران کے نا م سے واقف تھے کیونکہ اُس وقت قلعہ چترال سے فارسی میں جو خطوط ہندوستان اور افغا نستان بھیجے جا تے تھے ان کو پڑھنے والے سمجھتے تھے کہ ہندوستان کا کوئی بڑا منشی اور ادیب قلعہ چترال میں دفتری امور چلا تا ہے،

 

 

امیر عبد الرحمن خان کو جب بتا یا گیا کہ یہ شخص میر زہ محمد غفران ہے اور چترال کا با شندہ ہے تو وہ حیراں ہوا کہ چترال میں ایسا انشا پرواز پیدا ہوا ہے آپ کو منطق، فلسفہ اور تقا بل ادیان پر بھی عبور حا صل تھا پنڈت لکھ رام کے ساتھ آپ کا منا ظرہ ہوا تو دو گھنٹوں میں وہ لا جواب ہو کر بھا گ گیا ایک عیسائی مشنری کے ساتھ منا ظرہ ہوا وہ بیحد چرب زبان تھا مناظرہ میں نا کام ہو کر اُس نے اسلام قبول کیا اس کی ڈائری کو یو نیورسٹی آف وینس (Venice) اٹلی کے پرو فیسر سٹیفانو پیلو (Stefano Pello)نے ڈھونڈ نکا لا ہے اس میں علا مہ غفران کا ذکر بھی آیا ہے مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ علا مہ غفران نے چترال کی تاریخ کیوں لکھی؟ یہ کام اس کے علمی مقام سے فرو تر تھا پھر سوچتا ہوں تو اُس کے ما حول پر غور کر تا ہوں امان الملک، سردار نظام الملک اور افضل الملک کے ساتھ ان کی نشست و بر خا ست کے احوال پڑھتا ہوں تو مجھے ان پر بہت تر س آتا ہے

 

 

اس نے اپنا علم، اپنی تحقیق اور اپنا قیمتی وقت قتل مقا تلے کی کہا نیاں لکھنے پر ضا ئع کیا حالانکہ اس مو ضو ع پر مر زا محمد سیر جیسے عالم اور دانشور کی رزمیہ داستان شاہنا مہ سیر ان کے سامنے تھی جو شاہنا مہ فردوسی کے ہم پلہ تھی جس میں چترال کے شمشیر زنوں کو رستم و زال کی ہم پلہ قرار دیا گیا تھا لیکن وطن کے لو گوں نے اس کی تحسین و پذیرائی نہیں کی اتا لیق محمد شکور غریب کے کلا م میں اہل وطن کی نا قدری کا ذکر بار بار آتا ہے علا مہ غفران بھی اسی نا قدری سے دو چار ہوا
ما شا خ در ختیم پُر از میو ہ تو حید
ہر رہ گذری سنگ زند عار نداریم

 

 

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
101748