داد بیداد ۔ جمہوریت کا مستقبل ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
داد بیداد ۔ جمہوریت کا مستقبل ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
اس وقت دنیا میں جمہوریت کے تین بڑے دعویدار ہیں امریکہ، بر طانیہ، اور بھا رت، تینوں نے حزب اختلا ف کے لئے شما لی کو ریا کا رویہ اختیار کیا ہے، اب جمہوریت پر اگر برا وقت آئے گا تو عالمی سیا ست کے تجزیہ کار میانمر اور بنگلہ دیش کا نام نہیں لینگے بلکہ امریکہ، بر طانیہ اور بھا رت کا نا م لینگے ذرائع ابلا غ میں جو خبریں آرہی ہیں ان کی رو سے امریکہ میں حکمران ڈیمو کریٹک پارٹی نے حزب اختلا ف کی ریپبلیکن پارٹی کے خلاف انتقامی کا روائیوں کا وسیع جا ل پھیلا دیا ہے آنے والے صدارتی انتخا بات میں ٹرمپ کا راستہ روکنے کے لئے تما م غیر آئینی اور غیر قانونی حربے استعمال کئے جا رہے ہیں، بر طانیہ میں کنزر ویٹو پارٹی کی حکومت لیبر پارٹی کے لیڈروں کو ہرا سان کر نے کی غیر جمہوری پا لیسی پر عمل پیرا ہے، بھا رت میں بی جے پی کی حکومت نے تما م حدیں پار کر تے ہوئے کانگریس اور عام آدمی پا رٹی سمیت حزب اختلا ف کی جما عتوں سے تعلق رکھنے والے اہم لیڈروں کو جیل میں ڈال دیا ہے تا کہ نر یندرا مو دی کی کا میا بی کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ رہے
بھا رت کی تاریخ میں پہلی بار یو پی کے وزیر اعلیٰ اروند کیچریوال کو صرف اس لئے گرفتار کیا گیا ہے کہ اس کا تعلق حکمران جما عت بی جے پی سے نہیں بلکہ مخا لف جما عت سے ہے بھارت ان ملکوں میں شامل تھا جو اب تک سب سے بڑی جمہوریت کا راگ الاپ رہے تھے اب جا کر پتہ لگا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مو دی اور شما لی کوریا کے صدر کم جو ن اون کی سیا سی پا لیسیوں میں کوئی فرق نہیں حا لانکہ اب تک دنیا والے شمالی کوریا کی قیادت کو آمریت کا نا م دیتے تھے اس کے مقا بلے میں بھارتی قیا دت کو جمہوریت کا علم بردار سمجھتے تھے اب دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ بھارت اور شما لی کوریا میں سیا سی لحا ظ سے کوئی فرق نہیں دونوں جنگجو ریا ستی پا لیسی رکھتے ہیں دونوں غیر جمہوری رویہ رکھتے ہیں، دونوں اپنے مخا لفین کو ایک لمحے کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتے میانمر اور بنگلہ دیش میں آمرانہ حکومتوں کی لمبی تاریخ ہے، دونوں ملکوں کو جمہوریت کا کوئی خا ص دعویٰ بھی نہیں وہاں مخا لفین کو جیل میں ڈالنا یا پھانسی دینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں،
تجزیہ نگاروں کو تعجب اس وقت ہوتا ہے جب امریکہ اور بھا رت جیسے جمہوریت کے دعویدار مما لک سیا سی مخا لفین کو انتقام کا نشانہ بنا نے کی آمرانہ پا لیسی اختیار کر کے غیر جمہوری رویہ اپنائیں اور ریا ست کو فاشزم یا فسطا ئیت کی طرف دھکیلنے کے لئے سویٹ لیڈر سٹا لن، جرمنی کے ہٹلر اور اٹلی کے ڈکٹیٹرمسولینی کے نقش قدم پر چلنے لگ جائیں سٹا لن کے بعد خرو شچیف بر سر اقتدار آئے تو پارلیمنٹ میں آکر انہوں نے اعلا ن کیا کہ ظلم اور جبر کا دور ختم ہوا، سویٹ یونین کی نئی پا لیسی برداشت اور انصاف پر مبنی ہو گی سٹا لن کی تما م پا لیسیوں کو اٹھا کر کوڑے دان میں پھینکا گیا ہے اس تقریر کے دوران پا رلیمنٹ کے ایک ممبر نے اپنا نام ظا ہر کئے بغیر ایک رقعہ لکھ کر سٹا لن کو بھیجا رقعے میں لکھا تھا کہ اگر سٹا لن کی پا لیسیاں غلط تھیں ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں تھیں تو ان کی زند گی میں تم نے یہ باتیں پا رلیمنٹ کو کیوں نہیں بتائیں اُس وقت تم کیا کر رہے تھے؟
رقعہ پڑھنے کے بعد خروشچیف نے کہا جس معزز ممبر نے یہ رقعہ بھیجا ہے وہ اپنی نشست پر کھڑے ہو کر یہ باتیں دہرائے تاکہ ان کا نقطہ نظر بھی پا رلیمنٹ کے سامنے آجا ئے، تین بار یہ اعلان ہوا تینوں بار رقعہ لکھنے والا سامنے نہیں آیا مسلسل خا مو ش رہا تو خرو شچیف نے رقعہ پڑھ کر سنا یا اور آ خر میں کہا میں بھی اُس وقت آپ کی طرح خا مو ش اور گمنا م رہنا چاہتا تھا، سامنے آنے کی ہمت مجھ میں بھی نہیں تھی جمہوریت کے زوال کی مو جو دہ حا لت میں امریکہ اور بر طا نیہ میں عدالتیں آزاد ہیں عدالتوں سے انصاف کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن بھارت میں عدالتوں پر بھی آمریت کا گہرا سایہ پڑا ہوا ہے بھارتی عدالتیں وہی کر تی ہیں جو نریندرا مو دی چاہتا ہے بھارتی الیکشن کمیشن بھی آمریت کے شکنجے میں آگیا ہے اس لئے جمہوریت کی پا سداری اور آئین کی با لا دستی کی آخری امید بھی دم تو ڑ چکی ہے چنا نچہ امریکہ اور بر طانیہ کی طرح بھارت میں بھی جمہوریت کے دعویٰ کی قلعہ کھل گئی ہے اب یہ دعویٰ کوئی نہیں مانتا کہ بھا رت جمہوری ملک ہے۔