
خودی اور خْدا………….. ڈاکٹر اسماعیل والی اخگر
فکر اقبال کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ خدا شناسی کے لیے نفس انسانی میں موجود احساس انفرادیت کو ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ اقبال سے پہلے وجود باری تعالی کے لیے فلسفیانہ دلائل موجود تھے لیکن اقبال کے لیے یہ دلائل خشک اور بے معنی ہیں۔ فلسفے میں پہلی دلیل ارسطو کی ہے یہ دلیل اس کی منطقی مجبوری ہے کیونکہ ارسطو کی منطق اسباب کے گرد گھومتی ہے لیکن ایک مرحلہ ایسا بھی اتا ہے کہ اسباب ختم ہوتے ہیں تو مجبور اََ اس طاقت کا حوالہ دیا جاتا ہے جس کا کوئی سبب نہیں ہوتا۔ اس دلیل کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے- جب کوئی یہ سوال کرے کہ دلیل کے مطابق ساری اشیاء کا انحصار اسباب پر ہے پھر خدا تک پہنچتے اصول کہاں عائب ہوتا ہے فلسفے میں دوسری دلیل اشیاء کے وجود سے لیا گیا ہے چونکہ ہر شی کا وجود ہے تو خدا کا وجود کیوں نہ ہو بلکہ وہ واجب الوجود ہے۔ فلسفے میں تیسری دلیل مقصدیت کا ہے کہ کائنات میں ہر شی کا مقصد ہے اور کائنات کا مقصد خدا ہے تاہم یہ دلائل بحیثیت مفکر اقبال کو مطمن نہیں کرتے۔
فکر اقبال کا نچوڑ یہ ہے کہ کائنات کی ہر شی میں انفرادیت موجود ہے انفرادیت کی یہ توانائی کہاں سے آئی نفس انسانی میں پہنچ کر یہ احساس شعور کا حصہ بن جاتا ہے اور انسانی شخصیت کی یگانگت اس امر کا متقاضی ہے کہ یہ احساس کہاں سے آتا ہے یعنی “میں ” ہونے کا شعور و احساس اقبال کے مطابق یہ وہ توانائی ہے جو خدا کی وحدانیت کی طرف سے انسان کو بطور امانت دی گئی ہے لہذا خدا کو ظاہری کائنات میں ڈھونڈنا سعی لاحاصل ہے جس کو قران کی زبان میں “امر” کہا گیا ہے لہذا خدا سے انکار اپنے وجود سے انکار ہے۔
کافر کا مطلب چھپانے والا۔زمیندار کو اسلئے کافر کہتے ہیں کہ وہ بیچ کو زمیں چھپاتا ہے قران کی اصطلاح میں کافر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو خدا سے انکاری ہو یعنی اپنے” ہونے” سے انکاری ہو بالفاظ دیگر اس کی “خودی” اس کی انکھوں سے اوجھل ہو۔
ایک اہم نکتہ جو یہاں ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بیشتر صوفیائے کرام نے انفرادی خودیوں کی مثال قطرے سے دیکرفنا فی اللہ کے عقیدے کو پروان چڑھایا۔ کہ یہ سارے قطرے سمند ر میں غائب ہوتے ہیں۔ اقبال ان سے اختلاف کرتا ہے اقبال نفس انسانی کی انفرادی ارتقا کا قائل ہے اور دلیل کے طور پر معراج کے واقعے کو پیش کرتا ہے کہ ان کی شخصیت اتنی مضبوط تھی کہ وہ مطلق خودی (خدا) سے ہم کلام ہونے کے بعد بھی (قطرہ سمندر میں غائب نہیں ہوتا) بلکہ انفرادی طور پر اور بھی مضبوط ہو کر واپس آتا ہے۔
چونکہ ابن لرشد اجتماعی ما بعد حیات کے قائل ہیں۔ اقبال اپنی دلیل کے ذریعے انفرادی ما بعد حیات کو ثابت کرتے ہیں۔
اس بحث کا نچوڑ ان اشعار میں پایا جاتا ہے
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ ِ فسان لا الہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ