جشن نوروزکا پیغام…………تحریر عبدالقیوم چترالی
21 مارچ 2018 کو چترال کے اسماعیلی آبادیوں میں حسب روایت بڑے جوش و خروش سے جشن نوروز منایا گیا۔ اگر چہ یہ ایرانیوں کا قومی تہیوار ہے۔مگر آج کل ایک بین الاقوامی جشن کے طورپر منا یا جاتا ہے ۔ اسماعیلی آبادیوں میں اس جشن کو منانے کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ 642 ء میں جب مسلمانوں نے ایران فتح کئے اس کے نتیجے میں ایران کے شہنشاہ یز دجرد کی بیٹی بی بی شہر بانو کی شادی حضرت امام حسین کے ساتھ ہوئی تھی شہر بانوخانداں اہل بیت میں آنے کے بعد بھی نوروز منانے کو جاری رکھی جس کے نتیجے میں شعیہ مسلمانوں کے مختلف تشریحات سے تعلق رکھنے والے فرقے اسلام کے ابتدائی دور سے اب تک اس دن کو بڑے احترام سے مناتے آئے ہیں اسماعیلوں میں اس دن کی اہمیت اُس وقت بہت زیادہ تھی جب 909 ء سے 1094 ء تک آفریقہ اور مصر میں ان کی فاطمی خلافت تھی اُس وقت اس دن کو سرکاری طور پر منائے جاتے تھے اُس دن کی اُس وقت بھی اہمیت تھی جب ایران کے قلعہ الموت میں 166 سال تک اسماعیلوں کی اپنی ریاست تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 747 سال تک اسماعیلوں کے26 ائمہ ایران میں زندگی گزارے ہیں چترال کے اسماعلیوں میں یہ جشن اس وقت سے ہے جب پیر ناصر خسرو 1060 ء میں یمگان سے چترال انجگان آکر اسماعیلی دعوت کے ساتھ اس ایرانی تہوار کو متعاروف کر وایا تھا ۔ اس قدیم جشن کو منانے کی اور بھی کئی وجوہات ہیں تاریخ ایران کے مطابق یہ جشن جمشیدی ہے جس کا بانی ایران کا بادشاہ جمشید تھا ۔ البیرونی کی کتاب الہند کے مطابق نوروز سال کے تمام دنوں سے افضل ہے عمر خیام کی کتاب نوروزنامہ کے مطابق نوروز امید بہار کی خوشخبری کا دن ہے وہ اپنی روبا عیات میں نوروز کی اہمیت کو یوں بیان کرتا ہے ۔
بر چہرہ کل نسیم نورو ز خوش است
در صحن چمن روی دل افروزخوش است
پھول کے چہرے پر نسیم نوروز کی خوشی ہے باغ کی صحن کے دل کی چہرے پر بہت زیادہ خوشی ہے۔ یعنی بہار جب آتی ہے ہماری زمین جوان ہوتی ہے دنیا کی سب سے قدیم کتا ب اوستہ کے مطابق نوروز کائنات کی سالگرہ کا دن ہے اُ س دن شمسی سال کا آغاز ہوتا ہے اُس دن ہماری زمین 365 دنوں کی گردش مکمل کر کے 21 مارچ کو سورج کے با لمقابل برج حمل میں داخل ہوتی ہے جس کی وجہ سے دن اور رات برابر ہو تے ہیں یعنی جس برج سے زمین روز ازل میں اپنی سفر شروع کی تھی ۔ سال بھر مسلسل گردش کر کے دوبارہ اُسی جگہ پر آتی ہے جہاں سے سفر اول شروع کی تھی زمین کی ا س گردش کی وجہ سے نصف کرہ عرض میں دوبارہ موسم بہار جو بن پر ہوتا ہے فطرت کی تمام تخلیق ایک نیا رنگ پیش کر تی ہے زمین ایک نیا لباس پہنتی ہے
درختوں میں نئے پتے نمودار ہوتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں ہر طرف ہریالی ہوتی ہے گویا زمین روزبروز انتہائی حسن و ذبیائش کا نظارہ پیش کرتی ہے جس کو دیکھ کر یہ خواہش ہونے لگتی ہے کہ کاش یہ حسن وذیبائش سدا پرقرار رہے مگر یہ خواہش اُس وقت پایہ تکمیل تک پہنچ سکتی ہے جب ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں ۔
فطرت میں زمین کا ایک خاص مقام ہے زمین ہماری جنم گاہ ہے یہ ہمارے لئے جائے سکونت ہے اور یہی زمین ہی بوقت موت ہمارے جسد خاکی کو اپنے سینے میں دفن کرتی ہے ۔
بقول شاعر ۔
عمر اگر ہز ار سالم باشد
اخر بدل خاک قرارم باشد
یعنی انسان اگر دنیا میں ہزار سال بھی جیے لیکن ایک نے ایک دن اُس کو ہمشہ کے لئے اُس مٹی میں جا نا ہے ۔ قرآن پاک کی سورہ النحل ایت نمبر 13 پر اللہ تبارک تعالیٰ زمین کے حوالہ سے ارشاد فر ماتا ہے ۔
’’اور جو چیز یں پھیلائیں تمہارے لئے زمین میں رنگ برنگ کی نشانیاں ہے اُن لوگوں کے لئے جو سو چتے ہیں‘‘۔ اگر ایک عقلمند انسان اس بات پر غور کر ے کہ اس حسین وجمیل زمین پر اللہ تعالیٰ نے وہ تمام نعمتیں ،برکتیں اور رحمتیں رکھے ہیں جس کی انسانیت کو ضرورت ہوتی ہے ۔ انسا ن زمین کی ہر نعمت سے استفادہ کرتا ہے مگر انسان اللہ کا شکر نہیں کر تا ہے قرآن پاک کی سورہ الرحمن میں اللہ تبارک و تعالی بار بار انسانوں اور جنوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے ۔
’’ تم دونوں( جنس وانس )اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاو گے ‘‘ انسان اسی زمین پر اللہ کی نعمتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا تا ہے اُس کی ذبیائش سے لطف اندوز ہوتا ہے مگر اُسی کی فطر ت حسن کو پامال کرتا ہے ۔ انسان کے اسی عمل کو فطرت اُسے کبھی معاف نہیں کرتی ۔ انسان فطرت کی ہر شے کے لئے جو ابدہ ہے۔
آج مہذب ، حلقوں میں یہ سوال کافی گردش کر رہاہے کہ ہم أئندہ نسلوں کے لئے جو زمین بطور ورثہ چھوڑ کر جا رہے ہیں یہ ایک لحاظ سے کافی الودہ ہو چکی ہے اُس کے ہاں پانی کے ذخائر غلیظ ہو رہے ہیں اور ہوا میں بھی الودہ گی ہے ۔
اس وجہ سے کم عمری ہی میں لوگ دمہ کی بیماری میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں لوگ قداتی جنگلات کی کٹائی کرتے ہیں اور ساتوہی اُن کی جھڑوں کو زمین سے اُکھڑ دیتے ہیں ۔ جس کی وجہ مستقبل قریب میں پانی کی زیادہ قلت ہوگی اور کئی علاقے خشک اور بنجر ہونگے ۔
ہمارے اس رویہ کو کیا أ ئندہ آنے والے نسلیں ہمیں معاف کرینگے۔ یہ زمین انسان کی ملکیت نہیں بالکہ اللہ کی امانت ہے یہ زمین باغ خدواندی ہے اگر انسان اسی باغ خداوندی کا خیال رکھیں گے تو روز قیامت اللہ تبارک و تعالی انسان کے جسم لطیف یعنی روح کوجنت فردوس عطا کرین گے ۔ مگرباغ فردوس تک پہنچنے کے لئے ایک مسلمان کو قرآن پاک کی سورہ المومنوں کی آیت نمبر 2سے 9 تک جو چھ شرائط ہیں ان پر اس دنیا میں عمل کرنے کی ضرورت ہوگی ۔
اُن میں سے دو شرط یہ ہیں جن کا ذکر مذکورہ سورہ کی آیت نمبر 3 اور آیت نمبر 5 میں ہوا ہے(اورجو بہودہ کاموں سے منہ پھرنے والے اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے) قیامت کے دن وہی لوگ اس باغ خدواندی سے نکل کر اُس باغ فردوس تک پہنچ جائیں گئے جو اللہ کی ان احکام کی پیروی کریں گے ۔ موجودہ حالت میں جس طرح ہماری یہ زمین الودہ ہوئی ہے اسی طرح انسانی روحین بیہودہ کال ، بیہودہ SMS اور یوٹیوب میں نامناسب فلموں سے آلودہ ہورہی ہیں ۔ناصر خسرو کا قول ہے ’’یہ دنیا ایک خوبصورت عورت ہے جو بے وقوفوں کو اکثر فریب دیتی ہے‘‘ نوروز کا پیغام یہ ہے کہ انسان اس زمین کو الودہ نہ کریں اور اپنی روح جو اللہ کی امانت ہے اُسی کو گناہوں سے الودہ نہ کریں ۔ جشن نوروز کائنات کی سالگرہ کا دن ہے اس سالگرہ کے موقع پر یہ کائنات ہماری یہ زمین
ہم سے یہ تقاضہ کرتی ہے کہ اس میں بسنے والے انسان اُس کی سالگرہ پر اُس کو صفائی کا تحفہ پیش کر یں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ (صفائی نصف ایمان ہے) ۔ نوروز کااہم پیغام یہ ہے کہ جس طرف فطرت کے اندررنگارنگی ہے اسی طرح زمین پر رنگ ونسل ، ثقافتوں ،زبانوں اور مذاہب کے حوالے سے جو گونا گونی اور رنگا رنگی ہے اس کا احترام کیا جائے بنی نوع انسان کی بقا کا دارومدر ان اصولوں پر ہے یہ ہی نورز کا پیغام ہے۔