
تلخ و شیریں – بچے اور بے حسی کی دنیا – نثار احمد
تلخ و شیریں – بچے اور بے حسی کی دنیا – نثار احمد
بچے اچھے لگتے ہیں — سبھی کو لگتے ہیں۔
انسانوں کے بچے ہی نہیں، چرند، پرند، حتیٰ کہ درندوں کے بچے بھی اپنی معصوم حرکات، پیاری صورتوں اور بے ساختہ پن کے باعث دلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ بچوں میں محبت انگیز کشش ہوتی ہے یہ کشش کسی مذہب، قوم یا نسل کے تناظر میں نہیں ہوتی ہے۔
بچے دنیا میں نئے آئے ہوتے ہیں، انہیں نفرتوں کا اندازہ نہیں ہوتا۔ یہ منافقت سے دور ہوتے ہیں۔ خاندان کے بڑوں کے درمیان شدید جھگڑے ہوں، پھر بھی اُن کے بچے اسکول میں ایک دوسرے کے جانی دوست ہوتے ہیں۔
دو ایسے خاندانوں کو جانتا ہوں جن کے بڑوں میں سخت ناراضی ہے، لیکن ان کے بچے اسکول میں یک جان دو قالب ہو کر ہنستے، کھیلتے اور جیتے ہیں — جیسے بڑوں کی رنجشیں ان کے ضعیف و ناتواں کندھوں سے اُتر چکی ہوں۔
گھر اور بازار کے درمیان ایک جگہ ایک بازاری کتیا نے سرِ راہ بچے جنم دیے ہیں۔ روزمرہ کے کاموں کے دوران یہاں سے بار ِ دگر گزر ہوتا ہے۔ جب بھی راستے میں یہ پلّے مستیاں کرتے نظر آتے ہیں تو بڑے سُونے سُونے، پیارے پیارے لگتے ہیں۔
حالانکہ وقت گزرنے پر جب یہ بڑے ہو کر اپنی معصومیت کھو بیٹھیں گے اور کتوں کے کسی بازاری جتّے کا حصہ بن جائیں گے، تو ان کے تئیں وہ احساسات ہرگز نہیں رہیں گے جو ان کے بچپنے کی وجہ سے ہیں۔
گاڑی چلاتے ہوئے جب کبھی سامنے کوئی پلّا یا بلونگڑا آ جائے تو میری چار سالہ بیٹی چیخ کر کہتی ہے: “ابو! ان پر گاڑی مت چڑھاؤ!”
اور میں دل میں سوچتا ہوں، مجھے کس پاگل کتے نے کاٹا ہے جو ان معصوم جانوروں کو کچل دوں۔ لیکن میری بچی ان کی بےبسی، معصومیت اور کمزوری پر تڑپ اٹھتی ہے —بس یہ احساس ہی انسانیت کا حسن ہے۔
بچپن کا وہ دن آج تک نہیں بھولا ہوں، جب مینا کا بچہ ایک دن میرے قفس میں گزار کر رات کو مر گیا تھا۔ اس کے بعد قفس سے بھی وحشت ہونے لگی تھی۔ (سیزن کے دنوں میں مینا کا بچہ گھونسلے سے اٹھا لا کر گھروں میں لا پالنا ہمارے بچپن کے دنوں میں عام سی بات تھی)
بچے تو کتابِ زندگی کے اس صفحے کی مانند ہوتے ہیں جو بالکل صاف، سادہ، اور اُجلا ہو۔
ایک ایسا صفحہ جس پر ابھی نفرت، عداوت، حسد اور دشمنی کی سیاہی نہیں پھیری گئی ہو۔
یہ معصوم نفرت کے مفہوم سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ ان کے دل بغض، کینہ اور انتقام سے خالی ہوتے ہیں۔ ان کی مسکراہٹ زندگی کا رنگ ہے بلکہ زندگی کا حاصل بھی۔ اور ان کے آنسو دلوں کی چٹانیں بھی توڑ دیتے ہیں۔ تکلیف پہنچنے پر رونے پر آئیں تو ان کے رخسار پر بہنے والے آنسو سب کو بے چین کر دیتے ہیں خوش ہونے پر آئیں تو سارا جہاں ان کے ساتھ خوش خوش جھومنے لگتا ہے۔
افسوس، صد افسوس! حیف، صد حیف!
ارضِ فلسطین میں یہی معصوم، یہی کلیاں، مسلسل خاک و خون میں تڑپ رہی ہیں۔ گزشتہ کئی مہینوں سے یہ بچے از رائیلی سفاکیت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
غاصب ریاست کے درندے ان معصوموں کو جینے کا حق نہیں دے رہے۔ ایک ماہ کے شیرخوار سے لے کر بارہ سالہ بچوں تک کوئی محفوظ نہیں۔ حتیٰ کہ وہ بچے بھی نہیں جو ابھی ماؤں کے پیٹ میں ہیں — جنہوں نے سورج کی روشنی، چاند کی چاندنی اور ستاروں کی جگمگاہٹ نہیں دیکھی۔
یہ بچے ایک تاریکی (رحم مادر) سے دوسری تاریکی (قبر) کی طرف کوچ کر جاتے ہیں، بغیر کسی قصور کے، بغیر کسی وجہ کے۔
یہ بچے جنگ لڑ سکتے ہیں اور نہ اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ جو بچہ ابھی گود میں ہو، جو گرتے پڑتے چلنا سیکھ رہا ہو، بھلا وہ جنگ بھی لڑ سکتا ہے؟
انبیاء کی سرزمین سے نسبت رکھنے والے سن بچوں کا واحد “جرم” یہ ہے کہ وہ فلسطین کی سرزمین پر پیدا ہوئے، ایسی سرزمین جسے غاصب مکمل ہڑپنا چاہتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان بچوں کو ان کے خوابوں سمیت کچلا جا رہا ہے۔ ان کے وجود پر ظلم صرف اس لیے ڈھایا جا رہا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد قابضوں کے آگے سر جھکانے پر آمادہ نہیں۔
تمنائیں دل میں بہت ساری ہیں اور آرزوئیں بھی۔
آن آرزوؤں کے ہجوم میں ایک آرزو یہ بھی ہے کہ
“اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔”
بچپن سے سنتے آئے ہیں — مگر اب خواہش ہے کہ یہ دیر ہماری زندگی میں ہی ختم ہو جائے ۔ ہماری نگاہیں اس دیر کے اختتامی لمحات سے ٹھنڈی ہوں۔ اے کاش کہ یہ دیر ختم ہو۔