
تعلیمی نظام اور نوکری کا رشتہ – فضل اکبر سعدی
تعلیمی نظام اور نوکری کا رشتہ – فضل اکبر سعدی
تعلیم کا بنیادی مقصد فرد کی شخصیت سازی، اخلاقی تربیت، اور علمی و ذہنی ترقی ہے۔ ایسے افراد پیدا کرنا ہے جو مستقبل میں قوم کی صحیح رہنمائی کرسکے۔ لیکن بدقسمتی سے، آج کے دور میں تعلیم کا محور صرف اور صرف نوکری کے حصول تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے ایسے نصاب پڑھاتے ہیں جو صرف امتحانات میں کامیابی دلانے کے لیے ہوتے ہیں، لیکن عملی زندگی میں ان کی افادیت کم ہوتی ہے۔ہمیں اس بات پر زور دی جاتی ہے کہ ہمارا مقصد صرف نوکری کا حصول ہے
تعلیمی اداروں میں طلباء کو ایسی تعلیم دی جاتی ہے جس کا مقصد انہیں ایک مخصوص فیلڈ میں مہارت دلانا ہوتا ہے تاکہ وہ باآسانی نوکری حاصل کر سکیں۔ اس دوڑ میں اکثر طلباء اپنی دلچسپیوں اور صلاحیتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً، وہ نوکری تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن وہ اپنی فیلڈ میں شوق اور دلچسپی سے کام نہیں کر پاتے۔وہ اخلاص سے کام نہیں کرتے چند پیسے کیلئے غلامی کی زندگی گزارتے ہیں. تعلیم تو حاصل کرتے ہیں لیکن تربیت کا فقدان ہے ہم معاشرے میں “پڑھے لکھے جاہل ” کے نام سے جانے جاتے۔
جب تعلیم کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنا ہو تو معاشرے میں ایسے افراد کی تعداد بڑھ جاتی ہے جو محض ایک نوکری کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ان میں وہ صلاحیت اور جذبہ کم ہوتا ہے جو ایک رہنما میں ہونا چاہیے۔ رہنما وہ ہوتا ہے جو اپنے علم اور صلاحیتوں کو معاشرتی مسائل کے حل کے لیے استعمال کرتا ہے، لیکن جب تعلیم کا مقصد صرف نوکری ہو تو رہنماؤں کی بجائے نوکر پیدا ہوتے ہیں۔
اقبال نے کیا خوب کہا تھا
سبق پھر پڑھ صداقت کا شجاعت کا امانت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اگر ہم اپنی تعلیمی نظام پر نظر دوڑائے تو کئی بھی صداقت، شجاعت اور امامت کی درس نہیں ملتا
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نظام کو تبدیل کیا جائے تاکہ تعلیم کا بنیادی مقصد شخصیت سازی اور اخلاقی تربیت ہو۔ طلباء کو ان کی صلاحیتوں اور دلچسپیوں کے مطابق تعلیم دی جائے تاکہ وہ اپنے فیلڈ میں نہ صرف ماہر ہوں بلکہ اس میں شوق اور جذبے سے کام بھی کر سکیں۔ اس طرح ہم ایسے معاشرے کی تشکیل کر سکیں گے جس میں رہنماؤں کی کمی نہ ہو اور ہر فرد اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کر سکے۔