Chitral Times

Dec 11, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بیچارہ مرد – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on
شیئر کریں:

بیچارہ مرد – خاطرات :امیرجان حقانی

 

یہ دنیا کے رنگ عجیب ہیں۔ ایک طرف عورت کو مظلومیت کا تاج پہنایا جاتا ہے، دوسری طرف مرد کو ظالم اور بے حس بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر حقیقت شاید ان کہانیوں سے کہیں مختلف ہے۔ اگر کسی نے کبھی غور کیا ہو، تو معلوم ہوگا کہ مرد ایک خاموش عاشق ہے، ایک محبت بھرا ہیرو، جو اپنی محبت، خاندان اور خوابوں کی تکمیل کے لیے ہر روز ایک نئی جنگ لڑتا ہے۔

 

یہ دور واقعی “خواتین کا میڈیائی دور” ہے۔ پوری دنیا کا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا خواتین کے حقوق کا علمبردار نظر آرہا ہے۔ ہر طرف یہی شور ہے کہ عورت مظلوم ہے، اور اسے اس کے حقوق ملنے چاہئیں۔ یہ درست ہے کہ عورت کے مسائل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن کیا کبھی کسی نے مرد کے دکھوں اور قربانیوں کی طرف بھی توجہ دی؟ شاید نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مرد کی بیچارگی ایک خاموش حقیقت بن چکی ہے، جسے سننے والا کوئی نہیں۔ خود مرد بھی نہیں!

 

مسلم معاشروں میں جہاں عورت کو بہت سے حقوق دیے گئے ہیں، وہاں یہ کہنا کہ وہ “مظلوم” ہے، ایک پوسٹ ٹرتھ بیانیہ بن گیا ہے۔ یہ وہ تصور ہے جس میں حقائق کی جگہ جذبات نے لے لی ہے۔ اگر ہم مرد کی قربانیوں پر غور کریں، تو عورت مظلوم کم اور مرد بیچارہ زیادہ محسوس ہوگا۔

 

ذرا سوچیے، ایک مرد جب نکاح کے بندھن میں بندھتا ہے، تو اس کے لیے یہ صرف محبت کا ایک عہد نہیں ہوتا، بلکہ قربانیوں کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ نکاح اور شادی کی رسومات پر خرچ ہونے والے لاکھوں روپے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ ایک غریب مرد کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے، اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس آگ سے گزرے۔

 

شادی کے بعد ایک مرد پر صرف اپنی بیوی کو خوش رکھنے کی ذمہ داری نہیں ہوتی، بلکہ اس کے بچوں، خاندان اور ایک بہتر زندگی کے خوابوں کا بوجھ بھی آ جاتا ہے۔ وہ دن رات محنت کرتا ہے، اپنی خواہشات کو دباتا ہے، اور اپنے آرام کو قربان کر دیتا ہے، تاکہ اس کا خاندان خوش رہے۔

 

کبھی وہ پتھر توڑتا ہے، اور درجنوں، جسمانی و ذہنی مشقت پر مبنی کام کرتا ہے۔کبھی دفاتر کی ذلت سہتا ہے، اور کبھی اپنے دل کے ارمانوں کو دفن کر دیتا ہے، صرف اس لیے کہ اس کی بیوی اور بچے کسی چیز کی کمی محسوس نہ کریں۔ اور پھر بھی معاشرہ کہتا ہے کہ مرد ظالم ہے، عورت مظلوم ہے۔

 

اگر مرد کو صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی، یا وہ صرف اپنی جنسی خواہشات پوری کرنا چاہتا، تو شاید وہ شادی جیسے مشکل عمل سے کبھی نہ گزرتا۔ وہ بہت آسان اور سستے راستے بھی اختیار کر سکتا تھا۔ مگر نہیں، مرد یہ سب کچھ محبت، خاندان بسانے، اور اولاد کی خوشیوں کے لیے کرتا ہے۔

 

یہ سچ ہے کہ مرد کے جذبات اتنے واضح نہیں ہوتے، لیکن اس کے عمل میں محبت جھلکتی ہے۔ وہ اپنی خوشیوں کو پس پشت ڈال کر اپنے خاندان کے لیے ایک مضبوط دیوار کی طرح کھڑا رہتا ہے۔ ایسی دیوار جو دیوار چین سے بھی مضبوط ہے۔

 

کیا ہم نہیں جانتے کہ بیچارہ مرد ایک پورے خاندان کے خوابوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا ہے۔ بچوں کی تعلیم، ان کی خوشیاں، گھر کی ضروریات، اور ایک بہتر زندگی کی جستجو… یہ سب وہ دن رات محنت کر کے پورا کرتا ہے۔

 

ہر بار وہ اپنی خواہشات، اپنی خوشیاں، اور اپنی راحتیں قربان کر دیتا ہے، مگر اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ رہتی ہے۔ اس کے دل میں ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا خاندان خوش اور سکھی رہے۔

 

یہ کہنا کہ عورت ہمیشہ مظلوم ہے اور مرد ہمیشہ ظالم، شاید انصاف نہیں۔ ہر رشتہ ذمہ داریوں، قربانیوں اور محبت کے توازن پر قائم ہوتا ہے۔ جہاں عورت کی قربانیوں کو سراہا جانا ضروری ہے، وہیں مرد کی قربانیوں کو نظرانداز کرنا زیادتی ہے۔

 

مرد کی یہ محبت شاید الفاظ میں کم اور عمل میں زیادہ جھلکتی ہے۔ وہ محبت، عزت اور خاندان کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ ہر قدم پر اپنی محبت کے لیے جیتا ہے، اپنی عزت کے لیے لڑتا ہے، اور اپنی اولاد کے لیے خواب دیکھتا ہے۔

 

کیا یہ انصاف ہے کہ مرد کی ان قربانیوں کو نظرانداز کر دیا جائے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ عورت کو ہمیشہ مظلوم اور مرد کو ہمیشہ ظالم دکھایا جائے؟ شاید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد ایک خاموش عاشق ہے، جو اپنے پیار کو خوش رکھنے کے لیے اپنی ہر خوشی قربان کر دیتا ہے۔

 

یہ وقت ہے کہ ہم اس خاموش محبت کو تسلیم کریں۔ مرد کا دل بھی محبت کرتا ہے، اور اس کی محبت بھی اتنی ہی گہری، سچی اور خالص ہے جتنی کسی عورت کی ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے خاندان کے لیے ایک خاموش ہیرو ہے، جس کی قربانیاں شاید نظر نہ آئیں، مگر ان کی تاثیر ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔

 

یہ چند الفاظ، محبت کے اس ہیرو کو سلام پیش کرنے کے لیے لکھا ہے، جو ہر روز اپنی زندگی کی جنگ لڑتا ہے، اور پھر بھی مسکراتا رہتا ہے، صرف اس لیے کہ اس کی محبت کا جہان خوش رہے۔

 

یہ تحریر ان تمام خواتین کے نام بھی ہے جن کے مرد اپنی زندگی، محبت، خاندان اور رشتوں کے لیے وقف کر دیتے ہیں، اور پھر بھی “ظالم” کہلاتے ہیں۔ حقیقت میں، وہ اس دنیا کے سب سے بڑے مظلوم ہیں، مگر خاموش! کیا آپ اس ہیرو کو سیلوٹ کریں گی؟

 

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
96056