Chitral Times

Nov 9, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بھارت اور پاکستان میں سیکولرازم کا تصور اور غلط فہمیوں کا ازالہ – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on
شیئر کریں:

بھارت اور پاکستان میں سیکولرازم کا تصور اور غلط فہمیوں کا ازالہ – خاطرات :امیرجان حقانی

 

بھارت اور پاکستان دو ایسے پڑوسی ممالک ہیں جن کے نظریاتی اور آئینی ڈھانچے میں بنیادی فرق ہے۔ بھارت خود کو ایک سیکولر ملک قرار دیتا ہے، جہاں مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھا گیا ہے، جبکہ پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی گئی ہے، اور یہاں آئینی طور پر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔

 

بھارت میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 20 کروڑ ہے، جو اسے دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیتوں میں سے ایک بناتی ہے۔ اس اقلیت کو اپنے مذہبی حقوق کی حفاظت کے لیے سیکولرازم ایک حفاظتی دیوار فراہم کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان آزادانہ طور پر اپنی عبادات کر سکتے ہیں، اپنے رسم و رواج اور تہوار منانے کے حق دار ہیں، اور ان کے مذہبی تعلیمی ادارے بھی ریاست کی نگرانی سے آزاد ہیں۔ بھارت کے آئین نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ریاست کسی بھی مذہب کی حمایت یا مخالفت نہیں کرے گی، اور تمام شہریوں کو بلا امتیاز مذہب، مساوی حقوق فراہم کیے جائیں گے۔ خدانخواستہ اگر بھارت قانونی اور آئینی طور پر ہندو مذہب پسند ملک بن گیا تو کروڑوں مسلمانوں اور دیگر چھوٹی اقلیتوں کی مال وجان اور عزت و ابرو اور دیگر ادارے برباد ہوکر رہ جائیں گے اور ان کی زندگی مزید اجیرن بن جائے گی۔

 

یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماء ہند جیسی سکہ بند علماء کی سیاسی جماعت اور ان کے ہم خیال جید علماء بھی بھارت میں سیکولرازم کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ بھارت جیسے ملک میں مسلمانوں کی بقا اور ترقی کا واحد راستہ سیکولرازم ہے، کیونکہ یہ نظام انہیں مذہبی آزادی اور مساوات فراہم کرتا ہے۔

 

اس کے برعکس، پاکستان کا آئینی ڈھانچہ اسلامی نظریات پر مبنی ہے، جہاں اللہ کی حاکمیت کو ریاست کے تمام معاملات پر حاوی قرار دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں، پاکستان میں سیکولرازم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ یہ اسلامی نظریے کے خلاف ہے۔ پاکستان کے علماء اور دینی طبقے، بالخصوص جمیعت علماء اسلام اور دیگر بڑی سیاسی جماعتیں اور اہل علم و قلم، سیکولرازم کو ایک ایسے نظام کے طور پر دیکھتے ہیں جو اسلامی اصولوں کے منافی ہے اور اس کی مخالفت اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں مذہبی بنیادوں پر ایک عادلانہ معاشرہ قائم ہو سکے۔

 

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ، جو اپنے آپ کو اسلامی نظریات کے علمبردار سمجھتے ہیں، اور خود مولانا مودودی رحمۃاللہ علیہ کے پیروکار یا مقلد بھی کہتے ہیں، سیکولرازم کے متعلق، بھارت اور پاکستان کے علماء کے خیالات و تصورات کو بطور طنز استعمال کرتے ہیں اور ان صاحب فکر و نظر علماء پر طنز کرتے ہوئے عجیب و غریب پوسٹیں شئیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ شاید اس بات کا شعور نہیں رکھتے کہ بھارت میں سیکولرازم مسلمانوں کی بقا اور حقوق کی حفاظت کا ضامن ہے، جبکہ پاکستان میں اس کی مخالفت عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔

 

ان افراد کو سمجھنا چاہیے کہ ہر ملک کا آئینی اور نظریاتی ڈھانچہ مختلف ہوتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے لیے سیکولرازم ایک نعمت ہے، جبکہ پاکستان میں اسلامی نظام ہی ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد ہے۔ ان دونوں ممالک کے حالات اور تقاضے مختلف ہیں، اور اس کو سمجھنے کے بجائے طنز و مزاح کے ذریعے نظریات کا مذاق اڑانا خود نادانی اور کم فہمی ہے۔

 

لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نظریات اور عقائد کو درست تناظر میں سمجھیں اور ان پر فخر کریں۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ جیسے بڑے علماء کے نظریات کو سمجھے بغیر ان کے نام کو استعمال کرنا اور ان دو ممالک میں سیکولرازم کے حوالے سے طنزیہ رویہ اختیار کرنا نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ مولانا کی جدوجہد اور ان کے نظریات کی توہین بھی ہے۔ایسے لوگ معدودے چند ہی ہیں۔

 

آخر میں، یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت میں سیکولرازم مسلمانوں کے لیے حفاظتی حصار ہے، جبکہ پاکستان میں اسلامی حاکمیت ہماری شناخت اور بقا کی ضامن ہے۔ ہمیں اپنے نظریات اور عقائد پر فخر کرنا چاہیے اور ان کی حفاظت کرنی چاہیے، نہ کہ انہیں طنز و مزاح کا نشانہ بنانا چاہیے اور تفریق کا باعث بن کر علمی حلقوں میں اپنا مقام گرانا چاہیے۔یہاں تک یہ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے بھی سیکولرازم بہتر ہے تو اس کا مناسب جواب یہی ہے کہ آئین پاکستان، پاکستان میں بسنے والی تمام غیر مسلم کمیونٹیز کو مساوی حقوق عطا کرتا ہے اور ساتھ ہی چند امتیازی حقوق، مسلمانوں سے زیادہ بھی مہیا کرتا ہے اور قومی اسمبلی میں پاکستانی اقلیتی برادری کے لیے سیٹیں بھی مخصوص ہیں۔ اور ویسے بھی پاکستان کے غیر مسلم شہری قانونی اور آئینی طور پر مساوی حقوق انجوائے کرتے ہیں چند ایک چیزوں کے سوا۔ باقی چند شرپسند عناصر کی ہمارے غیر مسلم شہری بھائیوں کے خلاف مجرمانہ حرکتوں اور دہشتگردی پر مبنی اقدامات کو پاکستان کے آئین، قانون اور اکثریتی مسلمانوں کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔ ہر ذی شعور ان کا ظالموں کا مخالف ہے۔اور ہاں جو لوگ آئین اور پاکستان کو ہی تسلیم نہیں کرتے اور اعلانیہ برات کا اظہار کرتے ہیں، وہ پاکستان کے مسلم یا غیر مسلم شہری کہلانے کے مستحق بھی نہیں۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92784