Chitral Times

Dec 5, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بھارت اوراسکے پڑوسی ممالک(3) بھارت اور بھوٹان…… ڈاکٹرساجد خاکوانی

Posted on
شیئر کریں:

عصری بین الاقوامی قانون میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے ”پناہی“(Protectorate)ممالک۔جب کوئی طاقتورملک یا طاقتورتنظیم کسی خودمختارعلاقے کو کسی دوسرے طاقتورفریق سے اپنے تحفظ میں لے لے توایسے خود مختار ملک کو”پناہی“(Protectorate)ملک کہتے ہیں۔ایسے میں طاقتورملک کی طرف سے پناہی ملک یا پناہی خطہ کو پناہ حاصل ہوتی ہے اور وہ کسی بھی طرح کی ریاستی،سفارتی یا عسکری زورآوری وجارحیت سے بچارہتاہے۔انیسویں صدی کے بین الاقوامی قانون میں ایسی علاقے کو الگ ریاست یا آزاد ریاست تصورنہیں کیاجاتاتھا جب کہ عصری بین الاقوامی قانون میں پناہی ممالک کو ایک علیحدہ ریاست کی حیثیت حاصل ہو تی ہے۔ابتدائے اسلام میں یہ عمل ”پناہ“کہلاتاتھااور فرد تک محدود تھا۔جب کوئی سرداریاطاقتور فرد کسی کمزور کو پناہ دے دیتاتو پھر اس کمزور کے تحفظ کی ذمہ داری پناہ دینے والے پر عائد ہو جاتی تھی۔یہ تصور کالونی بننے کے تصور سے قدرے مختلف ہوتاہے۔کالونی میں ریاست کے نمائندے کی حکومت ہوتی ہے اور مقامی آبادی ایک طرح سے غلامی کی زندگی بسر کررہی ہوتی ہے جب کہ پناہی(Protectorate)ممالک میں مقامی آبادی کو آزادی حاصل ہوتی ہے جبکہ پناہی حکومت کچھ معاملات میں طاقتور ریاست کی پابند ہوتی ہے اور یہ باہمی رضامندی سے طے پانے والے معاہدے پر منحصر ہوتاہے۔عموماََپناہی ریاستوں کاصیغہ خارجہ اور صیغہ دفاع آزادی سے محروم ہوتالیکن یہ بھی کوئی حتمی بات نہیں ہے۔المختصر یہ اپنی خود مختاری کلی یا جزوی طورپر رہن رکھ کر اغیار کی بالادستی کو عارضی طور پر یا مصلحتاََقبول کرلیاجاتاہے۔دنیاکے کم و بیش تمام مذاہب میں یانظریات میں پناہی ریاست بننے کی گنجائش ہوسکتی ہے لیکن اسلامی نظریہ سیاست میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔

”بھوٹان“جنوبی ایشیائی آزادوخود مختار ریاست ہے۔یہ ملک چاروں اطراف سے زمینی خطوں میں گھراہے اور سمندر سے یکسر محروم ہے۔بھوٹان کے شمال میں کوہ ہمالہ کی بلندو بالا برف پوش چوٹیاں ہیں جن کی پشت پر عوامی جمہوریہ چین ہے اور جنوب میں بھارت کی واحد ریاست ہے۔”ھمپو“(Thimphu)یہاں کا دارالحکومت ہے۔بھوٹان کے ساتھ بھارتی علاقے سکم،مغربی بنگال،آسام اور اروناچل پردیش جڑے ہوئے ہیں۔تاریخی طورپربھوٹان کی ریاست ماضی بعیدسے گزشتہ صدی تک بین الاقوامی تنہائی کا شکاررہی ہے۔بھوٹان کی بین الاقوامی تنہائی اس وقت ختم ہوئی جب 1910ء میں بھوٹان کی ریاست نے برطانوی ہندوستان کی پناہی ریاست بنناقبول کیا۔اس معاہدے میں خارجہ تعلقات کے لیے حصول راہنمائی کوخاص اہمیت حاصل تھی۔اس معاہدے کا نام ”پناکھامعاہدہ“(The Treaty of Punakha)ہے۔معاہدہ بھوٹان کے بادشاہ اور برطانوی ہندوستانی حکومت کے درمیان طے پایااور 8جنوری1910ء کواس معاہدے پر ”پناکھا“کے مقام پر دستخط ہوئے۔معاہدے کے مطابق تاج برطانیہ نے ریاست بھوٹان کی آزادی و خودمختاری کو تسلیم کرلیا،ریاست بھوٹان کی مالی امدادمیں اضافہ کیااوربھوٹان کے خارجہ تعلقات کو اپنی ”پناہ“میں لے لیا۔دو بڑی بڑی جنگوں نے جب برطانوی اعصاب شل کردیے تواس سامراج نے اپنے وطن واپس سدھارنے کاارادہ کیااور آزادی کے نام کو بدنام کرنے لیے اپنی گزشتہ ریاستوں کے درمیان فسادکے بیج بوتاگیا۔15اگست 1947ء بھوٹان کایوم آزادی ہے۔اس طرح یہ ملک بھی بدیسی طاغوت سے آزاد ہوگیا،لیکن ابھی بھی آزادی کی مزل یہاں سے کوسوں دور ہی تھی۔

بھوٹان پہلا ملک ہے جس نے بھارت کو سفارتی طورپر تسلیم کرلیا۔بھوٹان کواس مہربانی کی سزا یہ ملی کہ اسے 2010ء جیسے معاہدے پرمجبورکردیاگیاکہ برطانوی سامراج کی طرح بھارتی طاغوت سے بھی اسی طرح کا معاہدہ کر کے تو اپنی آزادی و خود مختاری کو گروی رکھ دیاجائے۔8اگست1949ء کوبھوٹان کی آزادوخودمختارریاست ایک بار پھر ”پناہی“ریاست میں بدل گئی،فرق صرف اتنا رہا کہ بدیسی سامراج سچ بولتاتھا اور بھوٹان کو ”پناہی ریاست“کہتاتھاجبکہ مقامی طاغوت جھوٹ بولتاہے اور بھوٹان کو آزادوخودمختارکہتاہے جبکہ گزشتہ سامراج کی نسبت موجودہ طاغوت نے بھوٹان کی چولیں گزشتہ سے زیادہ مضبوطی سے کس رکھی ہیں۔”دارجلنگ“جوبھارت کی ریاست مغربی بنگال کی ایک فوجی چھاؤنی ہے،کے مقام پر اس معاہدے پر دستخط ہوئے،اس معاہدے کو دوستی کامعاہدہ کہاگیا،جب کہ طاقتورسے کمزور کی دوستی کا مطلب ساری دنیا جانتی ہے۔1949کے اس معاہدے کی رو سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے،معاہدے کے مطابق بھوٹان نے اس بات کو تسلیم کر لیاہے کہ خارجہ امور میں وہ بھارت کی ہدایات کاپابندرہے گااور اپنے دفاع میں بھی بھارت کا دست نگررہے گا۔معاہدے میں باہمی آزادتجارت اورمجرموں کی حوالگی بھی طے کر لی گئی۔معاہدے کی شق پانچ اور چھ کے مطابق بھوٹان پابند ہے کہ ہر طرح کااسلحہ اور گولا بارود صرف بھارت سے ہی خرید کرے گا اور بھوٹان پابند ہے کہ کسی طرح کا اسلحہ یا بارودحکومت کے ذریعے یا کسی کسی نجی ادارے کے ذریعے ملک سے باہر نہیں بھیج سکتایا کسی کو فروخت بھی نہیں کر سکتااور نہ ہی اپنے ملک میں بھوٹانی حکومت خود یا کسی نجی کمپنی کو اسلحہ یا گولہ بارود بنانے کی اجازت دے سکتی ہے۔دنیابھرکے معاہدوں کی مدت ہوتی ہے یا پھر ان معاہدوں میں ہی معاہدہ ختم ہونے کا طریقہ لکھا ہوتاہے،لیکن بھارت بھوٹان معاہدہ میں ان دونوں امور کی کوئی تخصیص و تحدید نہیں ہے۔اس سے زیادہ اچھنبے کی بات یہ ہے کہ کسی اختلاف کی صورت میں ایک نمائندہ بھارت کا اور ایک نمائندہ بھوٹان کی حکومت کا ہوگا اور ان دونوں کا موقف بھارتی عدلیہ کا کوئی جج سنے گا اور اس کا فیصلہ حتمی ہو گا۔کیا بھارتی جج اپنے ملک و قوم کے خلاف بھی کوئی فیصلہ دے گا؟؟؟خواہ بھوٹان کا سارا ملک ہی دریا برد ہوجائے،پس جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔بھوٹان پر دفاعی پابندیاں دیکھ کر ایک عام فہم انسان بھی اندازہ کر سکتاہے کہ یہ پابندیاں دراصل کس کے خلاف ہیں۔بھوٹان کے ساتھ دو ہی ممالک لگتے ہیں،بھارت اور چین۔چنانچہ بھارت کی لگائی گئی یہ ساری پابندیاں فی الاصل چین کے خلاف ہی ہیں۔اسی لیے 1958میں جب جواہر لعل نہرو بھوٹان کے دورے سے واپس آئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ بھوٹان کے خلاف جارحیت بھارت کے خلاف جارحیت سمجھی جائے گی اور بھاٹان کا دفاع بھارت کی ذمہ داری ہے۔اس پر بھوٹان کے وزیراعظم چینخ اٹھے کہ بھوٹان کوئی ”پناہی(Protectorate)ملک نہیں ہے اور نہ ہی بھارت کے ساتھ بھوٹان کا کوئی قومی سلامتی کا معاہدہ ہے۔

بھوٹان کی اس حیثیت کے باوجود بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات تب بھی موجود ہیں۔”سرپانگ“جو کہ جنوبی بھوٹان کاایک ضلع ہے اور”جیلے پھاگ“نامی بھوٹانی قصبے کی بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے ساتھ ملنے والی سرحدوں میں سرحدی پٹی پر بھارت اور بھوٹان کے درمیان اختلافات 1973ء سے چل رہے ہیں۔کئی دفعہ کئی کمشن بیٹھے لیکن برہمن کی ہٹ دھرمی نے کوئی نتیجہ نہ نکلنے دیا۔1960میں بھوٹانی قیادت کایہ بیان منظر عام پر بھی آیاکہ 1949کا معاہدہ بھوٹان کی مکمل آزادی میں مزاحم ہے۔1971ء میں اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کے بعدسے بھوٹان کے حکومتی ایوانوں میں خارجہ امور کی آزادی حاصل کرنے کی ایک خاموش جستجو متحرک ہے۔خاص طور پر بنگلہ دیش کوتسلیم کر لینے کے بعد 1972ء میں بھوٹان نے ایک معاہدے کے تحت کسی تیسرے ملک کے ساتھ تجارت کے لیے محصولات میں کمی حاصل کی۔اسی طرح غیروابسطہ ممالک کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد کمبوڈیا کے معاملے میں بھوٹان نے بھارتی موقف کے علی الرغم کھل کرچین کاساتھ دیا۔بھوٹان کی قیادت نے آہستہ آہستہ بھارتی سحر سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا چاہا ہے چنانچہ 2007کو پرانے معاہدہ دوستی کی تجدید کی گئی اور اس میں ہتھیاروں کی درآمد پر لگائی پابندیوں کو کافی حد تک نرم کر دیاگیااور بھوٹانی سرحدوں کے احترام پر بھی بھارت قائل کرنے کی کوشش کی گئی۔اب جب کبھی بھی بھوٹان کی حکومت چین کی طرف جھکناچاہتی ہے یااس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کاارادہ کرتی ہے تو بھارتی حکومت بھوٹان پر اپنا دباؤ بڑھا دیتی ہے۔کبھی تو معاہدوں کے حوالے دیے جاتے ہیں،کبھی امداد کی لالچ دی جاتی ہے اور پھر بھی بھوٹان قائل نہ ہو دھونس دھاندھلی اور زورآوری سے بھی گریز نہیں کیاجاتا۔

بھارت کی ہمساؤں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔بھوٹان تو بھارت کے ساتھ مذہبی اور ثقافتی طورپربھی بہت زیادہ بندھاہوا ہے۔لیکن بھارتی قیادت کی کیا خوب سوچ ہے کہ سیکولر ممالک کے ساتھ مذہبیت کی بنیاد پر اختلافات ہیں تو مذہبی ممالک کے ساتھ لبرل ازم کے باعث کشیدگی ہے۔بھارت کے یہ رویے پڑوسی ممالک کب تک برداشت کرتے رہیں گے؟؟؟پوری دنیامیں آزادی کی لہریں ہیں،چھوٹی چھوٹی قومیں اپنے آزاد ممالک میں خودمختاری کاجھولا جھولتی ہیں اور اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ تر بناتی ہیں۔دوسری دنیاؤں میں بھی زمین گھرے کتنے ہی ممالک ہیں جو سمندر سے محروم ہیں لیکن ہمسایہ ممالک انہیں راہداری کی مکمل سہولیات فراہم کرتے ہیں جس سے دونوں ممالک کو فائدہ حاصل ہوتاہے،پڑوسیوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا اور انہیں ناک تک زمین میں دفن کر کے توصرف سانس لینے کی آزادی کو ان کا کل سامان زیست قرار دے دینا صرف برہمنیت کا ہی وطیرہ ہے،لیکن ہمیں امید ہے بھوٹان اپنی بہترین قیادت کے بل بوتے پر بہت جلد اس سحرکوتوڑنے میں کامیاب ہوگا،انشاء اللہ۔
[email protected]


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
26598