Chitral Times

Dec 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بلی کی نیت و تمنا ………. بر ملا اظہار: فدا علی شا ہ غذریؔ

Posted on
شیئر کریں:

کتے اور بلی کو یہ سعادت حا صل ہے کہ دنیا بھر کے انسان انہیں پا لتو جا نور کے طور پر پا لتے ہیں۔ مغرب میں ان کو خا صا پرو ٹو کول دیا جا تا ہے اور مشرق میں بھی ان کو ایک اچھا مقام دیا گیا ہے۔ یہ دو نوں جانور اپنی اپنی صلا حیتوں اور خا صیتوں کے سبب مقبول ہیں۔ کتا ایک وفادار جانور کے طور پر دیکھا جا تا ہے اور جہاں بات وفاداری کی ہو انسان کتے کی مثال دینے پر مجبور ہو جا تا ہے جبکہ بلی بھی انسا نی رغبت کا زیادہ حقدار ٹھہری ہو ئی ہے۔ بلی پر کئی مضا مین، شاعری، محا ورے اور ضرب المثل دنیا کی ہر ادب کا حصہ رہے ہیں۔ غا لباً ایک ہی تھیم کے ضرب الامثال اکثر ہر زبان میں ملتے ہیں۔فا رسی کے نامور شاعر پیر نا صر خسرو کی شاعری میں بلی کی ایک خا صیت بتا ئی گئی ہے جس میں بلی کو اپنے بچوں کا دشمن گر دانا گیا ہے اور دنیا کو اپنے بچے کھا نے والی بلی سے تشبہح دی گئی ہے۔ ہمارے ہاں کھوار میں بھی کئی محاو رے اور ضرب الامثال بلی سے منسوب ہیں۔ فا رسی کے نا صر خسرو اورانگریزی ادب کے ایلن پو بلی سے منسوب جن ضرب الامثال کا ذکر اپنی تحریروں میں کر تے ہیں وہی سوچ اور سچا ئی بلی کے بارے ہمارے ہاں بھی ہر زبانوں میں مو جود ہے۔ کھوار کے ایک ضرب المثل بلی کی دعا اور نیت کے با رے بھی ہے جو اکثر خود غرضی اور فرد واحد کی اپنی ذات کے لئے منفی جدوجہد کو بیان کر تا ہے۔ کہتے ہیں کہ بلی کی نیت ہمیشہ برا ئی کامظہرہے،ٹھاٹ سے گھر میں رہنے والی بلی چا ہتی ہے کہ گھر میں سب لوگ مر جا ئے، بو ڑھی اماں اندھی ہو جا ئے تا کہ وہ اپنی مر ضی سے جب چا ہے دودھ نوش کر سکے۔ اس نیت سے بلی کی اصلییت واضح ہو جا تی ہے لیکن بے چاری کو سمجھ نہیں آتی کہ دودھ الماری تک پہنچا نے میں گھر کے کئی لوگوں کی محنت شا مل ہو تی ہے۔
.
میں گاوں کا رہنے والا ہوں اس لئے گاوں کے بلیوں کو سمجھانے کے لئے گاوں کا ہی مثال دے دیتا ہوں۔ میں اپنی بستی کے لوگوں کواکثر گا ئے بکریوں کے پیچھے خوار ہو تے دیکھ رہا ہوں، وہ صبح نکلتے ہیں شام کو واپس آتے ہیں، گا ئے بکری چرتیں ہیں او ر جب شام کو ددوھ نکا لنے کا مر حلہ آتا ہے گھر کی ما لکن اکثر دودھ نکا لنے کا کام انجام دیتی ہے اور کا فی محنت کے بعد دودھ الماری تک پہنچتا ہے اور وہاں سے بلی سمیت سب کو حسب نصیب مل جا تا ہے۔ اب ذرا ایک منٹ کے لئے سو چیئے گا! بلی کی نیت پوری ہو تی ہے اُ ن کی دعا عرش تک پہنچ کر منظور ہو جا تی ہے، گھر میں سوائے نا بینا اماں کے کو ئی نہیں بچتا اورہر طرف بلی کا راج ہو تا ہے، تو بتا یئے! بلی کی را ج نیتی میں دودھ گا ئے کے بدن سے الماری تک کیسے پہنچے گا؟ بے چاری گا ئے کو گھاس تک لیجا نے، چرا نے اور واپس لا نے کا کام کون انجام دے گا؟ کیا کو ئی ایسا بلا اس بیو قوف بلی کو نصیب ہو گا جو یہ سب مرا حل طے کر کے دودھ اس کے لئے الماری میں رکھ سکے؟
.
ہمارا معا شرہ بھی بلی کی نیت و تمنا کا مظہربن چکا ہے اور ایسے انسانوں سے بھر رہا ہے جو چا ہتے ہیں کہ سب مر جا ئے اُن کا راج ہو،سب محتاج ہو جا ئے اُن کے پاس دولت ہو، سب زیر دست ہو جا ئے اور وہ زبر دست بنے، تمام لوگ اندھیروں کے مکین ہو جبکہ وہ روشنی کا مسا فر، بستی کے مکینوں کی حالت تا ر تار اور چور چور ہو جبکہ صا حب کی جوتوں میں اُن کا چہرہ نظر آئے، ان پڑھ اور جا ہلوں کی جھر مٹ میں وہ ہی چمکے با قی سب کی ماند ہو، ہر محفل میں اُ ن کی آ مد کے طبلے بجے باقی سب سانس لیئے بغیر تا لیاں پٹتے رہے، دو دھ ان کے حصے میں ہی رہے اُ س سے کو ئی غرض نہیں کہ نا بینا دودھ نکا لے یا کانا، نیز زندگی کا ہر میدان صا حب کی کا میا بی کے جھنڈوں سے لبر یز ہو اور ہر طرف اُ نکی جیت ہو با قی سب کی مات۔
.
آرے بھا ئی! اندھوں میں کا نا را جہ بننا کو ئی اہمیت نہیں رکھتا، اہم تو یہ ہے کہ سب نا بینے مل کر با صلا حیت کا نے کو اپنا راجہ ما ننے پر مجبور ہو جا ئے تا کہ معا شرہ انصاف پر مبنی اُ صولوں کا تجر بہ گاہ بن سکے، ہر شخص اپنی بساط میں کچھ کر اور بول سکے، ہر شخص کو یہ حق حا صل ہو کہ وہ کچھ بننے کا خواب دیکھے اور اپنے خوابوں کو شر مندہ تعبیر کرنے کی تگ و دو جا ری رکھے۔ معا شرہ برابری کی بنیاد پر قائم رہ کر تر قی کر سکتا ہے،ہر شخص اپنی ذات میں بے شمار صلا حیتوں کو سنبھال کر مو قع کا متلا شی ہے اور کو ئی کسی سے کم نہیں ہو تا بس ہر ایک کا اپنا وقت ہوتا ہے چمکنے کا، کچھ کر دیکھانے کا، عزت و متا ع کما نے کا، کسی کے کام آنے کا اور کچھ بن کر دیکھا نے کا۔
.
میرے گا وں کی بلیوں کو اب اپنی نیت اور دعا کا لب ولہجہ اور متن تبدیل کر نی ہو گی تا کہ اُ ن کو اُن کے حصے کا دودھ ملتا رہے۔ سب مر جا ئے کی دعا اپنے وجود کے لئے مفید نہیں کیو نکہ بلی کا انحصار انسانوں کی محنت و حر کت پر ہے۔ اور با لکل ا سی طرح بلی کی سوچ کے حامل افراد کو بھی ’ربطِ ملت‘ کے فلسفے کو پروان چڑ ھا نا ہوگا ورنہ بقول اقبال دریا کے دامن میں ہی ’موج‘ مستی کر تا ہے بیرون دریا نہ تو کو ئی موج ہے نہ ہی اُسکا کو ئی کھوج۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
.
یار زندہ صحبت با قی


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
30477