Chitral Times

May 22, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ایسٹر کی خوشی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیغام – میری بات/روہیل اکبر

شیئر کریں:

ایسٹر کی خوشی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیغام – میری بات/روہیل اکبر

آج کا انسان کہیں نہ کہیں قید ہے اور سختیاں برداشت کررہا ہے اور اسکی زندگی دن بدن مشکل ہوتی جارہی ہے ان حالات میں آنے والی خوشیاں بھی ہمیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں دے پاتی الٹا ہمیں مقروض کرکے چلی جاتی ہیں عید ہو یا ایسٹر اس دن بھی عام لوگ ایک ایک خوشی کو ترسے ہوتے ہیں کسی کے پاس پیسے نہیں ہوتے تو کسی کے پاس وسائل نہیں ہوتے اور گھروں میں بچوں کے ساتھ یہ وقت گذارتے ہوئے انسان اندر ہی اندر شرمندہ ہورہا ہوتا ہے کہ خود تو کچھ نہیں لیا اور نہ ہی بچوں کو کچھ لیکر دے سکا کیسا تہوار اور کسی عید ہے کہ کوئی ادھار پیسے مانگنے پر بھی پیسے نہیں دیتا اور اسکے ذمہ دار ہم خود ہیں کیونکہ ہم لوگوں نے اپنے آپ کوڈر، جھوٹ،مکر اور فریب کے چاردیواری میں قید کررکھا ہے پوری دنیا میں مسیحی برادری ایسٹر کی خوشیاں منا رہی ہے حضرت عیسی کے ماننے والوں کا قیام پاکستان سے لیکر تعمیر پاکستان تک کے سفر میں قابل فخر کردار ادا ہے ایسٹر خوشی، امن اور بھائی چارے کا پیغام ہے حضرت عیسی علیہ السلام نے امن، محبت اور رواداری کاجو درس دیا ہے وہی پیغام تمام قومیتوں کیلئے مشعل راہ ہے

 

ایسٹر کا دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظیم قربانی، سچائی کی فتح اور نئی زندگی کی نوید کا دن ہے یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تکلیف اور آزمائش کے بعد راحت اور رحمت ضرور آتی ہے یہ فقط مسیحی برادری کا مذہبی دن نہیں بلکہ انسانیت کے لیے اْمید اور نجات کی علامت ہے پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک مسیحی برادری نے تعلیم، طب، دفاع، انسانی خدمت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا روشن باب ہے چرچ اسکولوں، ہسپتالوں اور سماجی اداروں نے ملک میں جو روشنی پھیلائی ہے وہ نہ صرف قابلِ ستائش بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے ہم مسیحی بھائیوں اور بہنوں کو یقین دلاتے ہیں کہ اْن کی قربانیاں، وفاداریاں اور خدمات کبھی فراموش نہیں کی جائیں گی یہ دن ہمیں اقلیتوں اور کمزور طبقات کے حقوق کا تحفظ کرنے کا درس دیتا ہے اسکے ساتھ ساتھ سماجی اور مذہبی رواداری کو فروغ دینا، صنفی امتیاز کا خاتمہ، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خلاف شعور بیدار کرنا، حب الوطنی کا جذبہ پروان چڑھانا، قومی مفاہمت اور مکالمے کو فروغ دینا، سماجی اور معاشی انصاف کو ممکن بنانا اور عوامی خوشحالی کے لیے عملی اقدامات کرنے جیسے کاموں کے لیے ہمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی دعوت دیتا ہے آئیے! ہم سب ایک ہو کر نفرتوں کے اندھیروں کو ختم کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کو ایسا پاکستان دیں جو امن، برداشت اور ترقی کا گہوارہ ہو تمام مذاہب، مسالک، اقلیتوں اور سول سوسائٹی کے تعاون سے پاکستان کو ایک پرامن، خوشحال اور روشن ریاست بنانے کے لیے سب کو متحد ہونا پڑے گا

 

اگر ہم یک جان نہ ہوئے تو دنیا میں تماشا بن جائیں گے ویسے بھی ہم لوگ اپنے اپنے نظریات میں قید ہیں جو ہمارے درمیان تعصب کی دیواریں بن چکی ہیں جو معاشرے کو سچ سے دور رکھتی ہیں اور سچ بولنے والوں کو پاگل خانے، تنہائی، یا خاموشی کی سزا دیتی ہیں ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں سچ کہنا صرف جرم نہیں بلکہ پاگل پن سمجھا جاتا ہے جب کوئی عورت ظلم کے خلاف آواز بلند کرے، جب کوئی استاد فرسودہ نظام تعلیم کو چیلنج کرے، جب کوئی نوجوان کرپشن پر سوال اٹھائے تو اس پر فوراً الزام لگایا جاتا ہے کہ دشمن ہے متوازن نہیں سوچتا یہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے گویا سچ کا اظہار کرنا ایک ذہنی بیماری بن چکا ہے ہمارے معاشرے میں عزت دار ہونے کی سند، جھوٹ سے وفاداری پر منحصر ہے جو جتنا اچھا جھوٹ بولے، جتنا بہتر چہرہ بنا کر منافقت کرے، وہی عزت دار، سلیقہ مند اور “معاشرتی فِٹ” کہلاتا ہے مگر جو انسان سچ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتا ہے اس کے لیے رویوں کی دیواریں کھڑی کر دی جاتی ہیں یہ دیواریں الزام کی، شکوک کی، تمسخر کی اور گہری خاموش تردید کی ہوتی ہیں عورتیں جو ظلم سہتی ہیں اکثر “ذہنی مریضہ” قرار دے کر خاموش کرا دی جاتی ہیں بچے جو سوالات کرتے ہیں انہیں “بدتمیز” کہہ کر دیوار کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے

 

دانشور جو سوچنے پر اْکساتے ہیں انہیں “فسادی” کہہ کر الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے حتیٰ کہ سچ کا ساتھ دینے والے بھی اکثر اس خوف سے خاموش ہو جاتے ہیں کہ کہیں وہ بھی کسی نفسیاتی مریض یا باغی کی فہرست میں شامل نہ کر دیے جائیں ان سب صورتوں میں اصل جیل وہ عمارت نہیں ہوتی جسے قید خانہ کہا جاتا ہے بلکہ اصل قید وہ سماجی سوچ ہے جو سچ کے لیے دروازہ بند کر دیتی ہے اور ان دروازوں پر جو تالے لگتے ہیں وہ جاہلیت، تعصب، مفاد پرستی اور روایت پرستی کے ہوتے ہیں ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کیا ہم نے کبھی کسی سچ بولنے والے کو کھلے دل سے سنا؟ کیا ہم نے کبھی کسی متاثرہ فرد کی مدد کی بغیر یہ سوچے کہ اس کے خلاف سارا محلہ کیوں خاموش ہے؟ کیا ہم نے کبھی یہ غور کیا کہ جنہیں پاگل، باغی، یا گستاخ کہا جاتا ہے

 

ان میں سے کتنے دراصل حقیقت پسند، مظلوم، یا باشعور لوگ ہوتے ہیں؟اصل دیواریں تو ہمارے اندر ہیں جو سچائی کو دیکھنے نہیں دیتیں، ماننے نہیں دیتیں، بولنے نہیں دیتیں جب تک ہم یہ دیواریں نہیں توڑیں گے نہ تو سچ کو آزادی ملے گی نہ ہی معاشرہ فلاح پائے گاعقل کی بات کرنے والوں کو دنیا اکثر پاگل ہی سمجھتی ہے اور یہ جملہ اس سماج کا آئینہ ہے ایک ایسا آئینہ جو اگر ہم نے وقت پر دیکھ نہ لیا تو ہم سب کبھی نہ کبھی اْسی پاگل خانے میں پہنچ جائیں گے چاہے اس کا دروازہ لکڑی کا ہو یا صرف رویّوں سے بنا ہوا ہو اس لیے سچ کو پاگل پن سے جدا کرنا ہو گا ورنہ ہم سب ایک ایسی قید میں زندہ رہیں گے جس کی دیواریں ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے بلند کی ہونگی اس لیے ہمیں ان دیواروں کے پیچھے جانے سے پہلے اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ ہم کہیں منافقت تو نہیں کررہے ہمارے اندر کچھ اور ہے اور باہر کچھ اور جب تک ہمارا اندر اور باہر ایک جیسا نہیں ہوجاتا تب تک ہم اپنے لیے کچھ کرسکتے ہیں اور نہ ہی ملک وقوم کے لیے اس لیے ہمیں ڈر اور خوف کا لبادہ اتار کر حضرت عیسی کی طرح بہادری،جرات اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنے کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا تبھی جاکر ہماری آنے والی نسلیں ایسٹر اور عید خوشی سے مناسکیں گی۔۔

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
101423