انتہا پسندی ایک سوچ کا نام ہے……..ڈاکٹر محمد اسماعیل ولی
موجودہ میڈیا شاہی کے زیر اثر انتہا پسندی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ منسوب کرنے کی کوشش زوروں پر ہے- اس وجہ سے دوسرے انتہا پسند گروہ پس منظر میں چلے جاتے ہیں- اور عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گیی ہے- کہ انتہا پسند رویے مسلمانوں میں پاے جاتے ہیں- انتہا پسندی ایک سوچ کا نام ہے- ضروری نہیں کہ یہ سوچ مذہب سے وابستہ عوامل سے ہو-
اسلام چودہ سو سالوں سے یہاں کے معاشروں میں موجود ہے- عرب سے نکل کر ایران، انڈیا، وسط ایشیا، انڈونیشیا،اور افریقہ اور یوروپ میں پھیل رہا ہے اور سات سو سالوں تک اندلس پر غالب رہا- اگر مسلمان چاہتے تو عرب علاقوں میں ایک یھودی یا ایک عیسایی کابھی زندہ بچنا محال تھا- لیکن تاریخ اس بات پہ گواہ ہے- کہ مدینے میں مسلمان ور یہودی مل جل کر رہتے تھے- اور کاروباری معاملات میں ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے تھے- اسی طرح ہندوستان پرتقریبا چھ سو سالوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی- اگر وہ چاھتے تو ایک ھندو یا بدھ برصغیر میں زندہ نہ رہتا- لیکن حقیقت یہ ہے- کہ وہ مل جل کر رہے-
یہ بات بھی مخفی نہیں- کہ مسلمانوں نے علم و ادب اور تحقیق کی سر پرستی کی- مسلمانوں کی سرپرستی میں ہر ایک علمی میدان میں کام ہوا- علم قران و حدیث و تفسیر، اور فقہ کے علاوہ ساینس، فلسفہ، منطق، طبیعت، کمیا، ، تاریخ ،عمرانیات، یہاں تک موسیقی پر اتنا کام ہوا ہے- کہ انسان کو حیرانگی ہوتی ہے- کہ کیا علمی ذوق تھا-
عمر خیام کی شاعری سے لیکر ابو بکر رازی کی ازاد خیالی تک راے زنی کی ایک کھلی کتاب ہمارے سامنے ہے- اایسی داستانیں لکھیں گییں- جن میں پیغمبروں اور صحابیوں کو بطور کردار پیش کیا گیا- لیکن کسی کو مارنے یا قتل کرنے کی مثال نہیں ملتی- کیی صدیوں سے مسلمان مغلوب ہیں- شکست خوردہ ہیں- اور اسلام ایک مخصوص طبقہ فکر کی گرفت میں ہے- یہ “اسلام” شکست خوردگی کی پیداوار ہے- اور اس “اسلام” کے پیروکار یہ چاہتے ہیں- کہ جس اسلام کی تعریف وہ کرتے ہیں- وہی اصل “اسلام” ہے- اور یہاں سے طاقت کے استعمال کا تصور شروع ہوتا ہے- اور انتہا پسندی کا رویہ فروغ پاتا ہے-
قران میں مسلمانوں کو امت “وسط” کھا گیا ہے- یعنی یہ افراط و تفریط سے بچنے والی امت ہے- دین و دینا میں توازن، جسم و روح میں توازن، رویوں میں توازن، علم و عمل میں توازن اور امدن و خرچ میں توازن قرانی نظام حیات کے بنیادی تصورات ہیں- اور عقل والوں نے بھی اس طرز زند گی کی تایید کی ہے- ارسطو جس کو باباے فلسفہ تصور کیا جا تا ہے- جب زندگی کی غایت پر غور کرتے ہیں- تو ان کو “خوشی” نظر اتی ہے- پھر خوشی کیا ہے- اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں- کہ خوشی اس وقت حاصل ہوتی ہے- جب عقل کو صحیح استعمال کیا جاے- پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے- کہ عقل کا صحیح استعمال کیا ہے- تو جواب یہ ملتا ہے- کہ زندگی میں توازن کی تلاشں عقل کا صحیح استعمال ہے- اس کو زرین وسط کا اصول کہا جا تا ہے-
اگر ہمارے ہاں بعض مذہبی عناصر انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں- تو وہ نہ صرف اسلام اور قران کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں- بلکہ عقل والوں کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں- جس کو قران کی زبان میں حکمت کہا گیا ہے- اسکو ہم مذھبی انتہا پسندی کہیں گے-
جسطرح مذہبی انتہا پسندی ایک حقیقت ہے- جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ ھندوں، یہودیوں، عیسایوں اور بدھ مذھب والوں میں پایی جاتی ہے- بلکہ جس رویے کی پیروی یک طرفہ طور پر کیا جاے- وہ انتہا پسندی کی صورت میں ظہور پذیر ہوتا ہے- اگر کویی طبیعات کا ماہر یہ کہے- کہ صرف طبیعات ہی ساینس ہے- باقی سب افسانے ہیں- تو یہ بھی انتہا پسندی ہے- اگر کویی سیکولر ادمی یہ کہے- کہ غیر مذہبیت ہی حقیقت ہے- باقی سارے افسانے ہیں- تو یہ بھی انتہا پسندی ہے- اگر کویی مارکٹنگ والا یہ سوچتا ہے کہ عورت کے بغیر کویی اشتہا ر نا مکمل ہے تو یہ بھی انتہا پسندی ہے- اگر کویی ماہر تعمیرات یہ سوچتا ہے یا سوچتی ہے- کہ انسان کی ترقی تعمیر ہی سے وابسطہ ہے- باقی گوشوں کی کویی حقیقت نہیں ہے- یہ بھی انتہا پسندی ہے-اگر کویی مرد یہ سوچتا ہے- کہ زندگی کا دارو مدار مرد پر ہی ہے- تو یہ اس کی انتہا پسندی ہے- اگر کویی عورت یہ سوچتی ہے- کہ مرد ہی ساری برایوں کا ذمہ دار ہے تو یہ اس کی انتہا پسندی ہے- اگر سفید فام قوم یہ سوچتی ہے- کہ باقی اقوام انسان کہنے کا لایق نہیں- تو اس کی انتہا پسندی ہے-اور اگر کویی ملک یہ سوچتا ہے- کہ ایٹم بم صر ف اس کے پاس ہو- باقی کسی ریاست کو یہ اختیا ر یا حق حاصل نہیں- تو یہ بھی انتہا پسندی ہے- اور اگر کویی قوم یہ سوچتی ہے- کہ صرف وہی مھذب ہے- باقی حیوان ہیں- یہ بھی انتہا پسندی ہے-اگر امریکہ کو یہ حق حاصل ہے- کہ وہ عسکری برتری اور نت نیے عسکری ہتھیاروں کی وجہ سے دنیا کے وسایل پر قبضہ کرنے کا سوچے- اور “علمگیریت” کے راستے پر گامزن ہو- تو ہر ایک قوم کو یہ حق حاصل ہے- کہ وہ بھی اپنی ماضی کی روشنی میں اپنے مستقبل کا راستہ تعین کرے- اگر امریکہ قومی مفاد کا بھانہ بناکر عراق، لیبیا، افغانستان کو تباہ کرسکتا ہے- تو چین، روس، اور دوسری ریاستوں کو بھی اپنے مفاد میں حکمت عملیاں بنانے کا حق حاصل ہے-
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے- جب تواز ن کا خیال نہ رکھا جاے- اچھے سے اچھا کام بھی نقصان دہ ہوتا ہے- – بہت زیادہ کھانا بھی نقصان دہ ہے- اور نہ کھانا بھی نقصان دہ ہے- حد سے زیادہ خرچ کرنا فضول خرچی ہے- اور بالکل نہ کرنا بخل ہے- اور افراط و تفریط سے بچنا حکم خداوندی کی فرمانبرداری بھی ہے عقلمندی بھی- یہ اصول فرد اور ریاست دونوں کے لیے یکسان طور پر مفید ہے- واللہ اعلم با ا لصواب