آٹھوین این ایف سی ایوارڈ کا خواب……… محمد شریف شکیب
قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا فیصلہ نہ ہوسکا اور حکومت کی آئینی مدت اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کی مدت 30جون2015کو ختم ہوچکی تھی۔ جولائی 2015سے 30جون 2016کے دوران آٹھویں قومی مالیاتی ایوارڈ کا اعلان ہونا تھا۔ اس حوالے سے مرکز اور صوبوں کے درمیان کئی بار مذاکرات بھی ہوئے۔ لیکن صوبوں اور وفاق کے درمیان ایوارڈ پر اتفاق رائے نہ ہوسکا۔چار سال قبل ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں قابل تقسیم قومی محاصل میں صوبوں کا حصہ 82فیصد رکھا گیا تھا۔ غربت کے خاتمے کے لئے دس فیصد، ٹیکسوں کی وصولی پر پانچ فیصد اور زیادہ رقبے کی بنیاد پر دو اعشاریہ سات فیصد وسائل دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ چھوٹے صوبوں نے مرکز سے بارہا مطالبہ کیا کہ صوبوں کا حصہ بڑھانے کے ساتھ غربت اور رقبے کے لحاظ سے اضافی وسائل فراہم کئے جائیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان غربت، پسماندگی اور رقبے کے لحاظ سے وسائل بڑھانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جبکہ سندھ کا موقف تھا کہ ٹیکس وصولیوں پر صوبے کے وسائل کی شرح بڑھانے کے ساتھ کروڈ آئل پر ایکسائز ڈیوٹی وصول کرنے کا اختیار صوبوں کو دیا جائے۔گذشتہ روز مالیاتی کمیشن کے اجلاس میں خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے احتجاج اور واک آوٹ بھی کیا تھا مگران کا احتجاج بھی صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔ چار سال پرانا این ایف سی ایوارڈ برقرار رکھنے سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو فائدہ اور چھوٹے صوبوں کا نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے دانستہ طور پر آٹھویں این ایف سی ایوارڈ کو التواء میں ڈال دیا گیا۔خیبر پختونخواکے ساتھ مرکز کا امتیازی سلوک مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی سیاسی مسابقت کی وجہ سے نہیں۔ہمیشہ سے ہمارے صوبے اور بلوچستان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا رہا ہے۔ مرکز اور خیبر پختونخوا میں ایک ہی پارٹی کی حکومتوں میں بھی یہ بدقسمت صوبہ نظر انداز کیا جاتارہا۔فروری1997سے اکتوبر1999تک خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن اور اے این پی کی مخلوط حکومت تھی۔ مرکز میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ پنجاب سے خیبر پختونخوا کو آٹے کی فراہمی معطل کردی گئی۔ پانچ روپے والی روٹی 18روپے تک پہنچ گئی اور عوام آٹا نہ ملنے کی وجہ سے چوکر کھانے پر مجبور ہوگئے۔2008سے 2013تک خیبر پختونخوا میں پی پی پی اور اے این پی کی مخلوط حکومت تھی اور مرکز بھی پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی ۔اس وقت بھی پنجاب سے گندم، آٹے اور پولیٹری مصنوعات کی ترسیل بار بار معطل ہوتی رہی ۔ مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمتیں بڑھا دی گئیں اور اس صوبے کے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی میں اسٹبلشمنٹ ہمیشہ رکاوٹیں پیدا کرتی رہی ہے اور اسٹبلشمنٹ میں واضح اکثریت پنجاب کی ہے۔ پانچ سالوں کے اندر صرف ایک بار قومی مالیاتی کمیشن کا ایوارڈ جاری کرنا بھی اسٹبلشمنٹ کی ہی کارستانی ہے۔تاہم مرکزی حکومت کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔پنجاب کو فائدہ پہنچانے کے لئے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے اجراء میں دانستہ تاخیر کی جاتی رہی۔ جس کی وجہ سے چھوٹے صوبے مستقل مالی بحران کا شکار رہے۔ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے وسائل پنجاب پر لٹائے جاتے رہے اور ہمارے صوبے کو اپنے جاری اخراجات اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے ملکی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے پر مجبور ہونا پڑا۔این ایف سی ایوارڈ کے علاوہ بجلی منافع کے بقایاجات اور سالانہ
رائلٹی کی ادائیگی میں بھی دانستہ تاخیر کی جاتی رہی ہے۔ جس پر صوبے کی تمام سیاسی پارٹیوں نے جرگہ بھی کیا۔ اور وفاقی حکومت سے مذاکرات بھی کئے مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ جیسے قومی وسائل کی بروقت اور منصفانہ تقسیم کے لئے کوئی واضح آئینی طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مرکزی حکومت کو پابندبنایا جاسکے کہ وہ صوبوں کو قومی وسائل میں ان کا حق فوری طور پر ادا کرے۔اور این ایف سی ایوارڈ کا اجراء مقررہ مدت کے اندر تواتر کے ساتھ ہوتا رہے۔تاکہ وفاق اور وفاقی ایکائیوں کے درمیان ہم آہنگی کی فضاء برقرار رہ سکے۔